جناب محمود علیؒ کی یاد میں!

علاّمہ اقبال کا یہ شعر کہ ....

”مرنے والوں کی جبِیں رَوشن ہے اِس ظُلمات میں
جِس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں“
ہر اُس بڑے انسان (ہیرو) پر صادق آتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے ایک وفادار ساتھی، تحریک پاکستان کے نامور کارکُن اور ”فاتح سلہٹ“ کے نام سے معروف جناب محمود علی بھی اُن سے ایک ہیں۔ پاکستان دولخت ہُوا اور مشرقی پاکستان ”بنگلہ دیش“ بن گیا تو محمود علی صاحب، بچے کُھچے پاکستان میں بس گئے اور اسلام آباد میں ہی دفن ہُوئے۔ پاکستان کے ہر حکمران نے جناب محمود علی کی عِزّت افزائی کی چنانچہ محمود علی صاحب تاحیات وفاقی وزیر رہے۔ موصوف بنگلہ دیش اور پاکستان کو اکٹھا کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ ”تحریک تکمیلِ پاکستان“ اُن کی یاد گار ہے۔
تحریک پاکستان کے سرگرم کارکُن ڈاکٹر مجید نظامی نے تحریک تکمیل پاکستان کے مقاصد کو عام کرنے کے لئے اہم کردار ادا کِیا۔ جنابِ نظامی کی قیادت میں "Pakistan Bangladesh Brotherhood" بہت فعال رہی ہے اور اُن کی وفات کے بعد بھی متحرک ہے۔ جناب مجید نظامی جب تک حیات اور صحت مند رہے، وہ جناب محمود علی کی برسی کے موقع پر اُن کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے لئے لاہور سے اسلام آباد تشریف لاتے رہے اور اُن کے بعد اُن کے مریدِ خاص ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔
جناب محمود علی کی 9ویں برسی آج (17نومبر) کو منائی جا رہی ہے لیکن اِس سال ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ اور ”پاکستان ورکرز موومنٹ ٹرسٹ“ کے اشتراک سے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں مرحوم کی یاد میں تعزیتی تقریب تحریک پاکستان کے ممتاز کارکُن اور فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد کی صدارت میں منعقد کی گئی۔ اِس موقع پر ”تحریک تکمیل پاکستان“ کی تنظیم نو کا اعلان بھی کِیا گیا۔ متفقہ طور پر چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کو مرکزی صدر، میاں فاروق الطاف کو چیف آرگنائزر، سیّد شاہد رشید کو سیکرٹری جنرل منتخب کِیا گیا اور مولانا محمد شفیع جوش، رانا طارق محمود، جناب محمد انور کمال، میاں مقصود احمد، بیگم صفیہ اسحاق اور میاں طاہر صدیق کو مختلف عہدوں کے لئے منتخب کِیا گیا۔ ”تحریک تکمیلِ پاکستان“ 1985ءمیں قائم ہوئی تھی۔ جناب محمود علی اِس کے بانی صدر تھے اور تحریکِ پاکستان نے ایک اور کارکُن سیّد ظہور عالم شہید سیکرٹری جنرل 1988ءمیں شہید صاحب کا انتقال ہُوا تو سیّد شاہد رشید سیکرٹری جنرل منتخب ہُوئے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ تنظیم نو کے بعد ”تحریک تکمیلِ پاکستان“ بڑے جوش و خروش سے جاری رہے گی۔ جناب محمود علی کہا کرتے تھے کہ ”نہ صِرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی طور پر بھی پاکستان کی تکمیل ہونا باقی ہے اور وہ اِس طرح کہ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے ”جناب مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ ”پاکستان کو دولخت کرانے کے میں پاک فوج اور سیاستدان ذمہ دار ہیں اور اُنہیں ہی بنگلہ دیش اور پاکستان کو ایک کرنا ہوگا۔“
جناب ذوالفقار علی بھٹو سے میرا تعارف (ان کے وزارت عظمیٰ کے آخری دَور میں) میرے ایک ”لہوری دوست“ انفارمیشن گروپ کے ایف ڈی مسعود نے کرایا تھا جو اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ مرحوم کے آخری دم تک میرا اُن سے تعلق رہا۔ وہ جب بھی لاہور تشریف لاتے تو میرے دفتر ضرور تشریف لاتے۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخاب لڑا تو میرا دفتر اُن کا ”الیکشن آفس“ بن گیا تھا۔ لندن میں مقیم مرحوم کے چچا زاد بھائی جناب مشرف مشتاق علی اُن کے ساتھ ہوتے تھے۔ جناب مشرف مشتاق علی کے والد جناب منّور علی اور اُن کے بڑے بھائی مولوی مجاہد علی (محمود علی صاحب کے والد) دونوں علی گڑھ یونیورسٹی کے لاءگریجویٹ تھے۔ جناب منور علی مشرقی بنگال اسمبلی کے رُکن اور آسام کے وزیرِ قانون بھی رہے۔ جناب محمود علی (1957-1958ءمیں) مشرقی پاکستان کے وزیرِ مال رہے تو وہاں انہوںنے زمینداری سِسٹم ختم کرانے کے لئے زرعی اصلاحات کرائیں۔
مَیں اکتوبر 2013ءمیں اپنے بیٹوں، بہوﺅں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے لندن گیا تو یہ محض اتفاق تھا کہ مجھے لندن کے علاقہ "Collirs Wood" میں واقع جامع مسجد ”داراُلامان“ میں اپنے بیٹوں افتخار علی چوہان، انتصار علی چوہان، انتظار علی چوہان اور پوتوں حیدر علی چوہان اور ذاکر علی چوہان کے ساتھ بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کاموقع مِلا۔ نمازیوں میں بنگلہ دیش، پاکستان اور فرانسیسی زبان بولنے والے کسی افریقی ملک کے مسلمان بھی تھے۔ مَیں نماز کے بعد اپنے بیٹوں اور پوتوں سے عید مِلا تو بے ساختہ مَیں نے اپنی عُمر کے چار پانچ بنگالیوں کو بھی گلے لگا لِیا۔ تو مجھے جناب مشرف مشتاق علی یاد آ گئے۔ مَیںنے انہیں ٹیلی فون کِیا تو انہوں نے گھر آنے کو کہا۔
جناب مشرف مشتاق علی لندن کے علاقہ ساﺅتھ برڈ فورڈ میں رہتے ہیں۔ میرا بیٹا انتظار علی چوہان (اپنے گھر سے 19 مِیل دُور) مجھے اُن کے گھر لے گیا۔ جناب مشرف مشتاق علی اور اُن کی اہلیہ بیگم سلینہ علی ہمیں مِل کر بہت خوش ہُوئے۔ دونوں نے جناب مجید نظامی کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہُوئے انہیں "Living Legend" قرار دیا اور کہا کہ ”ہم اورہمارا خاندان جناب مجید نظامی کی اِس نیکی کو کبھی نہیں بھلا سکے گا کہ اُن کی کوششوں سے پنجاب یونیورسٹی میں ”محمود علی چیئر“ قائم کر دی گئی ہے۔
جناب مشرف مشتاق علی 1961ءمیں اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن آئے تھے پھر وہیں کے ہو رہے۔ موصوف ریٹائرڈ چارٹرز کیمیکل انجینئر ہیں۔ بیگم سلینہ علی لندن کے سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز سے لائبریرین کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہو چکی ہیں۔ اُن کے بیٹے فواد ایم علی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور بیٹی بُشری علی قانون دان۔ جناب محمود علی کا بیٹا جمال محمود اور دو بیٹیاں اور بیٹا امریکہ میں اور تیسری بیٹی شہلا محمود کینیڈا میں ہیں۔
جناب محمود علی کی 8ویں برسی پر جناب مشرف مشتاق علی اور بیگم سلینہ علی اسلام آباد تشریف لائے تو مَیں نے انہیں اپنے گھر عشائیے پر مُدعو کِیا۔ سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات سیّد انور محمود اور اُن دونوں وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات چودھری محمد اعظم اور سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر پروفیسر محمد سلیم بیگ بھی اپنی بیگمات کے ساتھ موجود تھے۔ انفارمیشن گروپ کے اِن تینوں افسران کے بزرگوں کا تعلق تحریکِ پاکستان سے تھا اور اِن حضرات کا جناب محمود علی سے۔ اِس بار بھی 17 جولائی 2015ءکو مَیں نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ عیدالفطر کی نماز "Collires Wood" کی مسجد ”دارالامان“ میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداءمیں پڑھی، بنگلہ دیشی بھائیوں سے گلے بھی مِلا لیکن بیماری کے باعث جناب مشرف مشتاق علی کے گھر جا کر انہیں گلے نہیں مِل سکا۔ ٹیلی فون بھی نہیں کر سکا۔ لیکن مَیں نے جناب محمود علی کو بہت یاد کِیا۔ مَیں نے آج کا کالم بھی اُن کی یاد میں لِکھا ہے۔ اِس امید کے ساتھ کہ چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کی قیادت میں ”تحریک تکمیلِ پاکستان“ ایک نہ ایک دِن ”تکمیل پاکستان“ میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اِس یقین کے ساتھ کہ ....
” انشاءاللہ! فیر مِلاں گے، جے ربّ آن مِلایا“

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...