اب انگریزی محاورے والا "Damage" ہو چکا ہے

بلّی کو اِردگرد گھومتا دیکھ کر کبوتر اپنی آنکھیں موندلیتا ہے تو ایک حوالے سے اسے معصوم پرندے کی Cuteحرکت بھی کہا جاسکتا ہے۔ کئی صورتوں میں شاید صرف اپنی آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر بلیوں کے حملوں سے بچ بھی جاتے ہوںگے۔ بچت کے ایسے مراحل کی روایت موجود نہ ہوتی تو قانونِ ارتقاءکے تقاضے کبوتروں کو بلّی کی موجودگی میں آنکھیں موندلینے کی عادت کو ترک کرنے پر مجبور کردیتے۔

کبوتر سے منسوب معصومیت کے تناظر میں محض ایک بشر اور ریاستِ پاکستان کا عام شہری ہوتے ہوئے میرا خون اس وقت کھول جاتا ہے جب تلخ حقائق کی موجودگی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہماری اشرافیہ سے متعلق گروہ اپنی اپنی پسند کے ”حقائق“ گھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ قانونِ ارتقاءہمارے ہاں روبہ عمل نظر ہی نہیں آتا۔ دائروں کا سفر ہے جو کولھو میں جتے بیل کو تھکاتا اور دوسروں کے استعمال کے لئے تیل نکالتا چلاجاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز آئی۔ اس میں بیان کردہ باتوں نے ٹی وی سکرینوں پر عقلِ کل بنے اینکرخواتین وحضرات کے لئے رونق لگانے کے سامان فراہم کردئیے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی ترجمانی کے لئے جو مہمان ان کے ہتھے چڑھے ان کا عقلِ کل بنے اینکرخواتین وحضرات نے خوب مذاق اڑایا۔ ”کیسی رہی؟“ والے تیر چلاتے رہے اور بالآخر پنڈی کی لال حویلی کے مفکرِ اعظم نے ایک بار پھر ایک اور ڈیڈ لائن دے دی۔ ”قربانی سے پہلے قربانی“ کی بجائے اس بار فیصلہ ہوجائے گا 23مارچ 2016ءتک اور یہ فیصلہ یقینا ویسا ہی ہوگا جو خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر چلے کی صورت حال میں ہوا کرتا ہے۔
کبوتر کی طرح خربوزہ بھی اپنی بے چارگی عیاں ہونے پر پریشان ہوجاتا ہے۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے لہذا وزیر اعظم کے دفتر سے لفظوں کے محتاط چناﺅ کے ساتھ ایک جوابی بیان جاری ہوا۔ بے چاری جمہوریت کے خیر خواہ مطمئن ہوگئے۔ انہیں مزید اطمینان دلانے کو چودھری نثار علی خان بھی متحرک ہوچکے ہیں۔ سنا ہے موصوف نے دو روز اپنے وزیر اعظم کے ساتھ خاموشی سے طویل ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد ان کے روابط کن لوگوں کے ساتھ ہوئے۔ اس سوال کے بارے میں راوی مگر خاموش ہے۔ مطمئن ہمیں بس اتنا یاد دلاکر کیا جارہا ہے کہ چکری کے پیال راجپوت، چودھری نثار علی خان، کے عسکری قیادت سے روابط قدیم ہیں۔ وہ سیاسی اور عسکری اشرافیہ کے درمیان ہمیشہ ایک پل کی صورت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
میری بدقسمتی یہ ہے کہ نواز شریف کی گزشتہ دونوں حکومتوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ متحرک رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں حکومتوں میں بھی چودھری نثار علی خان کا شمار طاقت ور ترین وزراءمیں تھا اور شہرت ان کی ان دنوں بھی ایک ”پل“ کی ہوا کرتی تھی۔ یہ پل مگر غلام اسحاق خان کو اپریل 1993ءمیں نواز شریف کی پہلی حکومت کی برطرفی سے نہ روک پایا۔
نواز شریف کی دوسری حکومت میں واقعہ کارگل کے بعد وزیر اعظم اور جنرل مشرف کے درمیان بدگمانیاں گہری ہونا شروع ہوئیں تو ایک بار پھر مہینہ اپریل ہی کا تھا مگر سن تھا 1999ئ۔ چودھری نثار علی خان اپنے جگری شہباز شریف صاحب کے ہمراہ اس ہسپتال چلے گئے جہاں پرویز مشرف کے والد زیر علاج تھے۔ سید مشرف الدین کو بتایا گیا کہ ان کے ہونہار فرزند کو آرمی چیف کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بھی بنادیا گیا ہے۔
باری اس عہدے کے لئے اگرچہ پاک نیوی کے سربراہ کی تھی۔ فصیح بخاری ان کا نام تھا۔ چودھری نثار اور شہباز صاحب کی سید مشرف الدین سے ملاقات کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ایک قریبی دوست کے گھر بلواکر میرے ہاتھ میں اس استعفیٰ کی کاپی تھمادی جو انہوں نے اپنے ساتھ ہوئی ”ناانصافی“ کی وجہ سے دیا تھا اور وزیر اعظم اسے منظور کرنے سے ہچکچارہے تھے۔ میرا Exclusiveبن گیا۔ بخاری صاحب کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا۔ 12اکتوبر 1999ءاس کے باوجود ہوکررہا۔
چودھری نثار علی خان کے ساتھ میری مئی 2013ءکے انتخابات کے بعد ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک بار انہوں نے ازخود شفقت بھرا فون کیا تھا۔ کچھ غیر ملکی صحافیوں کو پاکستان کا ویزا ایک تقریب میں شمولیت کے لئے دینے میں دِقت ہورہی تھی۔ چودھری صاحب کو بتایا گیا کہ میں بھی ویزے کے اجرا کی خواہش کرنے والوں میں شامل ہوں۔ فون ملاکر انہوں نے گلہ کیا کہ مجھے اپنی خواہش براہِ راست ان کے گوش گزار کرنا چاہیے تھی اور مسئلہ حل ہوگیا۔
ایسے مہربان شخص کو طنزومزاح کا نشانہ بنانا میرے لئے ممکن ہی نہیں۔ متحرک رپورٹنگ کے کم بخت دن مگر ان کے حوالے سے یاد آجاتے ہیں۔ ریکارڈ کی درستگی کے لئے انہیں آپ کے سامنے رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے جھجک اس لئے بھی محسوس نہیں ہوتی کہ چودھری صاحب اخبارات پڑھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ میں اگر ان کے بارے میں کوئی فضول بات لکھ بھی ڈالوں اور ان کا کوئی مصاحب اسے نمک مرچ لگاکر چودھری صاحب کو سنائے تو چکری کے پیال راجپوت ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ باہمی عزت واحترام کا رشتہ ہم دونوں میں ابھی تک برقرار ہے۔
مجھے عرض اس کالم میں صرف یہ کرنا ہے کہ چودھری صاحب والا پل ذرا دیر میں استعمال ہوا۔ انگریزی محاورے والا Damageہوچکا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس کی حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے۔ حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے میں لال حویلی کے بقراطِ عصر والا پیغام بھی نہیں دینا چاہ رہا۔ 2015ءکے چند تقاضے ہیں۔ ان سے مفر فی الحال ممکن نہیں۔ پیرس میں ہوئے واقعات، امریکہ اور اس کے حواریوںکی توجہ اب ویسے ہی شام اور عراق پر مبذول کردیں گے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس توجہ کی وجہ سے ہمارا برادر ملک ترکی شاید ویسے ہی دباﺅ کا نشانہ بنے جو 9/11کے بعد پاکستان نے بھگتا تھا۔
اس ماحول میں جنرل راحیل شریف کو واشنگٹن میں طے ہوئی اپنی ملاقاتوں کے دوران ”جنوبی ایشیاءمیں علاقائی استحکام“ کی تفصیلات سمجھانے میں شاید زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔ ان کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل نریندر مودی استنبول پہنچ چکا ہے۔ پیرس کے واقعات کو بھارتی وزیر اعظم ہر صورت بمبئی میں ہوئے 2008ءکے واقعات کی دہائی مچانے کے لئے استعمال کرے گا۔ افغانستان کے شمالی اتحاد والے کئی برسوں سے ویسے ہی فرانس کے بہت لاڈلے رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنا Narrativeبیان کرنا ان دنوں مزید مشکل ہوجائے گا اور ایسے حالات میں ہم کسی صورت یہ تاثر پھیلانے کی حماقت میں مبتلا نہیں ہوسکتے کہ ہمارے وطنِ عزیز میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ کسی تناﺅ میں اُلجھی ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن