پاکستان کسی کےلئے ترنوالہ نہیں کیونکہ اس ایٹمی طاقت کے ملک کی قوم اور اس کے محافظ اپنی اپنی ذات، ارادوں اور جذبوں میں ایٹم بم کی مانند ہیں۔ جہاں دشمنِ وطن نے وار کیا وہاں پر پھٹ پڑے اور دشمن کو نیست و نابود کر دیا۔ عسکری اور سیاسی قیادتوں نے ہمسایہ ملک کو جس کی آنکھ کا میلا پن کسی طور پر صاف ہونے کو نہیں آرہا بارہا تنبیہہ کی ہے کہ وہ اپنی اشتعال انگیزیوں سے باز آجائیں اور جو بھی معاملات ہیں انہیں مذاکرات کے ذریعے حل کریں مگر اس شاطر دشمن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ جارحیت سے باز نہیں آتا کبھی وہ بلوچستان میں بربریت کرواتا ہے۔ کبھی کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ سے جوانوں کو شہید کرتا اور بارڈر کے قریبی علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اسکے اس انسانیت سوز سلوک اور ملکی سرحدوں کے اصول توڑنے کے عمل سے ہمارے فوجی جوانوں اور وہاں کے رہائشی عوام کے عزم اور بلند ہو جاتے ہیں اور ایک فرد بھی اپنا علاقہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔بھمبر سیکٹر میں بھارتی فورسز کی بلاجواز اور بلااشتعال فائرنگ سے ہماری سات قیمتی جانیں شہادت نوش فرما گئیں۔ بلاشبہ ان کو اس غیرانسانی حرکت کا ہم سے تین گنا زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت سے یہ سوال کیا جائے کہ اس طرح چھیڑ خانیوں سے اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ جنگ چاہتاہے؟ کیا اسکی گیدڑ بھبکیوں سے ہم اشتعال میں آکر جنگ کا آغاز کردیں؟ کیا اسکے کشمیری مسلمانوں پر کئے گئے اور مسلسل جاری رہنے والے انسانیت سوز مظالم وہ کبھی ختم نہیں کریگا؟ کیا وہ پاکستان کو پانی بند کر دینے کی دھمکیاں دےکر خوفزدہ کرنے کی کوشش کرےگا؟ کیا سیاچین گلیشیئر پر اونچائی پر ہونے کا فائدہ اٹھاکر ہروقت حملہ کرنے کے نعرے لگاتا رہے گا؟کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈرز پر بھارت کی جارحیت نہ صرف جنگ بندی سمجھوتہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا منافی ہے ابھی تک اس جارحیت میں بے شمار فوجی اور علاقائی لوگ جام شہادت نوش کرچکے ہیں مگر پاکستان کے تحمل کو کمزوری سمجھنا بھی حماقت ہے۔ گو کہ پاکستان نے کبھی فائرنگ میں پہل نہیں کی مگر دشمن کی کارروائی کا منہ توڑجواب ضرور دیا ہے اور اس میں وہ حق پر ہے۔ اسلام آباد تعینات بھارتی ہائی کمشنر کو فوری طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرانے کامقصد بھی یہی ہے کہ اب بہت ہوچکا اگر اس بزدلانہ سوچ اور بزدلانہ کارروائیوں پر پابندی نہ لگائی گئی تو بھارت کسی بھی بڑے نقصان کےلئے تیار ہو جائے۔ 13 سالوں میں پہلی مرتبہ توپ خانے کا استعمال بھی قابل تشویش ہے مگر پاکستان صرف اور صرف بھارت کی طرف سے جنگ کو ہوا دینے پراس لیے صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ ان دونوں ملکوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی عالمی امن کےلئے خطرہ نہ بن جائے۔ ویسے بھی پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور وہ دوسروں کی شروع کی گئی دہشتگردی کی جنگ اپنے ہی وطن میں لڑرہاہے مگر اس بات سے بھارت کا یہ جان لینا کہ شاید پاکستانی قوم کی افواج کمزور ہورہی ہے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف سوچ ہے۔ پوری دنیا پر پاکستانی شہر جوانوں کی طاقت عزم اور جنون اظہر من الشمس ہے اصل میں دیکھا جائے تو بھارت خود ایک بہت بڑا دہشتگرد ملک بن چکاہے انکے مظالم عالمی سطح پر بھی کسی سے چھپے ہوئے نہیںہیں۔ پاکستان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ چین جیسا مستحکم اور ترقی کی سوچ پہ محوِ پرواز ملک آج پاکستان کے ساتھ صنعت و تجارت کا سفر شروع کر چکا ہے یہ بات بھارت کے حلق میں مچھلی کے کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ ہماری عسکری قیادت کی فہم وفراست ، وطن کےلئے وارفتگی اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانا عالمی سطح پہ مانا جاتاہے اور اس کا معترف خود بھارت بھی ہے۔
پاکستان کی امن پالیسی پہ عالمی سطح پر یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ وہ نہ کبھی دہشت گرد ملک تھا، نہ ہے اور نہ بنے گا، تمام حقائق اور ثبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ اور امن و دوستی کے علمبردار تنظیموں کو پاکستان کی سربلندی و عظمت کو تسلیم کرنا ہی پڑیگا جس عسکری قیادت کے ساتھ ہماری افواج UN مشن پہ بھیجی جاتی ہیں وہاں بھی افواج پاکستان کے عظیم سپوت فتح و کامیابی کے علاوہ محبت و اخلاص کے گہرے نقوش چھوڑ آتے ہیں۔ پاکستان نظریاتی ملک ہونے کے علاوہ ایک اسلامی جمہوریہ مملکت بھی ہے جس کا مشن محبت ایثار و قربانی سے منسلک ہے جتنی مضبوط بہادر اور جری دل پاکستانی قوم اور افواج ہے اتنا ہی مکمل انسانیت کا پیروکار ہر پاکستانی ہے۔ اسی لیے تو اپنے بدترین دشمن کو بھی ہم مذاکرات اور سمجھوتے کی میز پہ لانا چاہتے ہیں تاکہ عالمی امن کے سر پہ منڈلانے والا بے امنی، بے سکونی اور غیریقینی کا بادل چھٹ جائے اوراُمت مسلمہ کے علاوہ دنیا کا ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا باشندہ امن وآشتی سے بھرپور زندگی گزارے۔ ہم ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونے کےلئے عسکری قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان شہداءکو جو اس وطن کےلئے جان دیتے اور سلام کرتے ہیں ان ماﺅں کو جو ایسے جری بہادر، صداقت و شجاعت کے مینار روشن کر کے وطن کی مٹی کو سونپ دیتی ہیں اور شہادت کی خبر ملنے پر سجدہ ریز ہوکر اللہ سے شہادت قبول کرنے کی دعا کرتی ہیں۔