حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ.... ایم کیو ایم بے چاری نہتی کیا ہوئی مینڈ کی کو بھی زکام ہوگیا۔ احمد رضا قصوری کوقوت گویائی مل گئی اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض کل پرزوں نے ایم کیو ایم کی قیادت کا بوجھ گئے گزرے پرویز مشرف کے کندھوں پر دیکھنا شروع کردیا۔ اس ملک میں سیاسی لاٹریاں بہت نکلتی ہیں۔ ماضی میں بھی بہت سوں کی نکل چکی ہیں‘ غلام محمد سے لیکر سکندر مرزا‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان اور جانے کن کن کی لیکن یہ سب لاٹریاں ایک ہی مرتبہ نکلیں دوسری مرتبہ کوشش کے باوجود نہیں نکل سکیں‘ ایوب خان کو تو خود لب کشائی کرنا پڑی کہ میں آئندہ صدارتی امیدوار نہیں ہوں گا‘ مگر اب اسے کیا کہیں کہ پرویز مشرف اور انکے حواری اسٹبلشمنٹ کے بعض کل پرزوں کے ایماءپر دوسری بار لاٹری نکلنے کے چکر میں ہیں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر متحدہ قومی موومنٹ پر چھاپہ مارنا چاہتے ہیں جو ناممکنات میں سے ہے ‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ این خیال است ومحال است وجنوں۔ یعنی یہ کار لا حاصل ہے جو پرویز مشرف اور ان کے بعض حواری کررہے ہیں۔ اسکا کوئی نتیجہ نکلے گا‘ نہ ہی پرویز مشرف الطاف بھائی کی جگہ مشرف بھائی جان بن سکیں گے۔یوں بھی پرویز مشرف کا مشرف بھائی جان بننا بہت مشکل ہے ‘ سائیکی کے اعتبار سے پرویز مشرف ایک مجموعہ اضداد ہیں‘ خیالی گلیمر بنتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے حوالے سے اور کبھی پاکستان کے حوالے سے ۔ انہوں نے آج تک جو سیاسی کام بھی کیا لوگ عش عش کر اٹھے‘ یعنی جو بات بھی کی خدا کی قسم لاجواب کی پورے پاکستان میں دس ووٹ بھی نہیں تھے اور صدر پاکستان بن بیٹھے‘ فوجی وردی میں صدر مملکت بن کر کرسی پر بیٹھ جانا بھی انہی کو زیبا تھا اور اپنے وقت میں انہیں حواری بھی ایسے ملے کہ اللہ کی پناہ‘ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ‘ جنہوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کرنا پڑا تو کرینگے اور ستم ظریفی زمانہ دیکھئے کہ آ ج وہی پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت ہیں جو کبھی بھولے سے پرویز مشرف کا نام تک نہیں لیتے پرویز مشرف کی کیا باتیں تھیں جناب.... سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر پاکستان کو سب سے پیچھے چھوڑ دیا اور خود سب سے آگے یوں نکلے کہ آنجناب کی صرف رسم تاج پوشی ہی باقی رہ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سیاسی فارورڈ بلاک بنوا کر ایسی پارلیمنٹ تشکیل دی جو موم کی ناک سے بھی زیادہ لطیف وگداز تھی۔ سیاسی منظر نامے اور جمہوری قدروں پر ایسی گرفت کی ہر شخص دل ہی دل میں گنگناتا تھا کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ طالع آزماو¿ں میں سب کو پیچھے چھوڑ دینے والا یہی پرویز مشرف تھا جس نے اپنے کردہ سیاسی گناہوں پر پردہ پوشی کیلئے اور مزید دس سال تک اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی خاطر این آر او تک اختراع کرلیا ملک کو اساسی نظریات سے ہٹا کر فسطائیت کی جانب لے جانے والا یہی قانون تھا کہ اگر نافذ ہو جاتا تو چھپڑ میں پڑے ہوئے کیڑے مکوڑوں کو بھی نہلا دھلا کر اشرف المخلوق بنایا جاسکتا تھا اور تعجب خیز بات ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی خدمت کے نام پر ہورہا تھا یہ شخص بہت سے شاطر اور فعال سیاستدانوں کو فائلیں دکھا کر اپنے ساتھ ملا لینے میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ راولپنڈی کے ایک فرزند سیاست کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بہاول پور جیل کاٹنے کے نتیجے میں انکے اعصباب مضمحل ہوگئے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ بھی پرویز مشرف کے حواری بن گئے انکی آج کی بڑھکیں سنیں تو مغالطہ ہوتا ہے کہ جمہوریت اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے والوں کے چمپیئن یہی ہیں لیکن جس وقت جاوید ہاشمی اور بیگم کلثوم نواز جمہوریت کیلئے ظلم وجبر کا سامنا کررہے تھے، تو یہ صاحب وزارتوں کے مزے لوٹ رہے تھے۔اگر اسی پرویز مشرف کو متحدہ بھائی جان بنانے چلی ہے تو پھر اس پر انا اللہ وانا الیہ راجعون‘ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ کیا الطاف حسین کے بظاہر راندہ درگاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت ایسے ہاتھ میں دے دی جائے جو اس ملک میں منفی اور منشتر سیاست کا ماسٹر مائنڈ رہا ہے۔ ہرگز نہیں‘ ایسا ممکن ہی نہیں اور بالفرض اگر ایسا ہو بھی جائے تو ایم کیو ایم کا عام کارکن تذبذب کا شکار ہو کر فرسٹریشن کی حالت میں پارٹی کو خیر باد کہہ جائے گا پھر ایم کیو ایم میں پرویز مشرف اور احمد رضا قصوری ہی رہ جائیں گے جو سیاست کے میدان میں اس حد تک متنازعہ ہیں کہ کوئی انکی بات سننے کیلئے تیار نہیں ۔مشرف بھائی جان کے حوالے سے دبئی میں کیا گہما گہمی ہے اور کیا رابطے استوار ہورہے ہیں؟یہ سب کچھ ہوتا رہے گا، احمدرضا قصوری کی زبانی باتیں بھی منظر عام پر آتی رہیں گی لیکن ایک بات طے ہے کہ ایم کیوایم میں مائنس ون فارمولے کو لاگو کرنے کا طریقہ مشرف بھائی جان کا تسلط نہیں ہے۔ نفسیاتی طورپر بھی ایم کیو ایم کے کارکنان اس کیلئے قطعی طورپر تیار نظر نہیں آتے۔ لہذا یہ تجویز ایک مفروضے سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ متحدہ کے کارکنان تو کیا خود ڈاکٹر فاروق ستار ‘انکے رفقاءاور پارٹی لیڈر شپ بھی اسکی حامی نظر نہیں آتی۔ کچھ بھی نہ ہو تو ڈاکٹر فاروق ستار ایک اٹل انسان تو ہیں‘ ان کا کہا سنا ایک سیاستدان کا فرمودہ ہوتا ہے۔ پارٹی قیادت اور کارکنان نے الطاف حسین کی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اسکے ساتھ وابستگی ظاہر نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اول وآخر پاکستانی ہیں اور اسی ملک میں مرنا جینا چاہتے ہیں۔ متحدہ پرویز مشرف کو بھائی جان بنانے کے ضمن میں ہزار مرتبہ سوچے گی اور امر واقع یہ ہے کہ اس سابقہ طالع آزما سے متعلق جو تازہ ترین انکشافات ہوئے ہیں‘ ان میں گیارہ غیر قانونی اکاو¿نٹس کا معاملہ بھی ہے جو بیرون ملک انہوں نے ٹیکس چوری کی نیت سے کھلوائے اور بقول انکے اس میں سارا سرمایہ بعض اسلامی ممالک کے سربراہان کا عطیہ کردہ ہے۔ نوازشریف اور انکی فیملی بارے پانامہ لیکس کی تحقیقات کروانیوالوں کے اذہان میں پرویز مشرف کے بیرون ملک اثاثوں کا معاملہ بھی آجانا چاہیئے اور اسکی تحقیقات بھی ضروری ہے۔ لیکن پرویز مشرف نے اپنے حالیہ ایک انٹرویو میں عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے اپنے غیر جمہوری اور غیر آئینی طرز عمل کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں کیا یہ مناسب ہوگا کہ ایک سابقہ طائع آزما اور غیر جمہوری ذہن کا حامل شخص جو پاکستان کی عدلیہ پر بھی اعتماد نہ رکھتا ہو وہ متحدہ کا سربراہ بن کر بیٹھ جائے اور پھر اسے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرکے ملک وقوم کیلئے مزید مصائب پیدا کرنے کا موجب بنے۔ ابھی تو ماضی کے زخم بھی نہیں سلے اور نہ ہی گزرے دنوں کی تلخیاں ختم ہوسکی ہیں‘ نظیر اکبرآبادی نے کہا تھا ....
کیاکیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی
ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا