تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما محترم محمود علی نے خود کو پاکستان کے عشق میں فنا کر دیا تھا۔ اسی لیے محب وطن افراد کی نگاہوں میں ان کا مقام آسمان سے بھی بلند تر ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں حیرت ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنے ملک کی محبت میں اس قدر عظیم قربانی پیش کرے۔ جب ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جارحیت اور اس کی پشتیبان اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی سازشوں کے باعث مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور تادم مرگ اس موقف پر قائم رہے۔ محمود علی کہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے عوام سے کسی نے دریافت نہ کیا تھا کہ آیا وہ پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہیں؟ تاریخ اسلام کے اس دلدوز سانحے کے بعد انہوں نے اپنے ہی وطن میں ہجرت کر کے اسلام آباد کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو مزید رہنمائوں نے بھی مادرِ وطن سے محبت کی حرمت قائم رکھتے ہوئے بنگلہ دیش جانا گوارا نہ کیا۔ ان میں ایک جناب نور الامین اور دوسرے راجا تری دیو رائے تھے۔ محمود علی مشرقی پاکستان کو کبھی نہ بھول سکے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی ان کی قدر افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پاکستانی عوام نے انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا تو حکومت پاکستان نے انہیں تاحیات وفاقی وزیر قرار دے دیا۔اس حیثیت میں انہوں نے بہت سے ممالک کے سرکاری دورے کیے ۔ ان کے پاسپورٹ پر ان تمام ممالک کی مہریں ثبت ہوئیں مگر ان میں بنگلہ دیش نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سبز پاکستانی پاسپورٹ پر ’’بنگلہ دیش‘‘ کے الفاظ کی مہر لگوا کر اسے خراب نہیں کرنا چاہتے ۔اگر کبھی کسی نے دریافت کیا کہ انہیں سلہٹ میں واقع اپنے آبائی گھر کی یاد نہیں ستاتی اور ان کا وہاں جانے کو دل نہیں کرتا تو کہتے کہ یاد تو بہت آتی ہے مگر جب بنگلہ دیش ازسرنو مشرقی پاکستان کے طور پر پاکستان کا حصہ بن جائے گا‘ تب وہاں جائوں گا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بے لوث سپاہیوں کی پاکستان سے محبت کا یہ ادنیٰ سا نمونہ ہے۔ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس منعقدہ لاہور میں منظور کردہ قرارداد پاکستان کے مطابق اس مملکت خداداد کی جغرافیائی تکمیل کی خاطر انہوں نے ’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی اور پھر ساری زندگی اس جدوجہد میں بسر کر دی۔ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے بغیر تکمیل پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا عزم تھا کہ ایک نہ ایک دن نہ صرف بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بن جائے گا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی بھارتی جبر و استبداد سے رہائی پا کر پاکستان میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ ان کے اس عزم ‘اس محبت کی سچائی یوں ثابت ہوئی کہ 17 نومبر 2016ء کو لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے مون لائٹ سکول‘ علامہ اقبال ٹائون میں منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے جوش جذبات میں آ کر کہا کہ ’’کشمیر پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اپنی جان خدائے بزرگ و برتر کے سپرد کر دی۔ وہ صدق دل سے سمجھتے تھے کہ خود کفالت کی منزل حاصل کیے بغیر کوئی قوم اپنی خودداری اور حاکمیت اعلیٰ برقرار نہیں رکھ سکتی‘ لہٰذا اس مقصد کے لیے انہوں نے تحریک خود کفالت کی بھی داغ بیل ڈالی تھی۔ گزشتہ روز پاکستانی قوم کے اس بطل جلیل کی دسویں برسی کی مناسبت سے حسب روایت ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محمد رفیق تارڑ نے کی۔ انہوں نے صدارتی کلمات میں محمود علی مرحوم کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور صدارت میں وہ مہینے میں ایک یا دو بار ایوانِ صدر تشریف لایا کرتے تھے اور میں نے اپنے سٹاف کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جب بھی ان کا فون آئے تو مجھ سے پوچھے بغیر انہیں آنے کا وقت دے دیا کریں۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ‘ وہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو از سر نو متحد کرنے کی بات کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان کے عشق پر قربان کر دی۔ وہ اپنی قسم کے واحد پاکستانی تھے جن کے دل و دماغ میں اس ارض پاک کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے لیے مادرِ وطن کا تقدس‘ سلامتی اور استحکام ہی سب کچھ تھا۔ نشست میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ ممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع‘پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ محمد ارشد چوہدری‘ کشمیری رہنما مولانا محمد شفیع جوش‘ نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ کے صدر ملک غلام ربانی اعوان اور نوید چوہدری نے اظہار خیال کیا۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے بطور خاص نشست میںشرکت کی۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے نظامت کے فرائض نبھاتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک طویل عرصہ تک محمود علی مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا جو کسی اعزاز سے کم نہیں۔ وہ سرتاپا وطن عزیز کی محبت میں سرشار تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ (آسام) کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے سلہٹ کے ریفرنڈم میں کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا اور بالآخر اسے پاکستان میں شامل کروانے میں سرخرو ہو گئے‘ وہ متحدہ پاکستان کی ایک شاندار علامت تھے۔ ان کے نقش قدم پر چل کر ہم پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔نشست کے اختتام پر مولانا محمد شفیع جوش نے محمود علی مرحوم کے بلندی ٔدرجات اور مغفرت کیلئے دعا کرائی۔
متحدہ پاکستان کی علامت… محمود علی مرحوم
Nov 17, 2016