سال رواں میں چوتھی بار امریکہ آنا ہوا ۔۔۔مارچ میں نیویارک کی ایک تقریب میں تین دہائی سے مقیم پاک امریکن لائر کے صدر رمضان رانا نے پیشگوئی کی کہ اگر ڈیموکریٹ نے برنی سینڈرس کو صدرِ نامزد نہ چنا تو ریپبلیکن کا ممکنہ نامزد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ Clean Sweepسے جیتے گا۔۔۔ کہ امریکی عوام ان دونوں یعنی میاں بیوی کلنٹن سے سخت بیزار ہیں۔۔۔!چار ماہ بعد جب باقاعدہ امریکی انتخابات کے پہلے مرحلے کی کوریج کے لیئے OHIO میں ریپبلیکن کے کنونشن میں تین دن ۔۔ اور پھر فلاڈلفیا میں ڈیموکریٹ کے چار روزہ کنونشن کو لمحہ بہ لمحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ڈیموکریٹس کو ہیلر ی سے شدید برہم پایا تو اُسی وقت یہ اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئی کہ صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں 45فیصد پارٹی کے پاپولر ووٹ حاصل کرنے والے برنی سینڈرس کو کلنٹن خاندان نے انتہائی چالبازی بلکہ دھاندلی سے صدارتی نامزدگی سے باہر کیا ہے۔۔۔ کنونشن کے آخر میں برنی سینڈرس نے اپنے پُر جوش خطاب میں اپنے حامیوں سے درخواست کی کہ وہ ہیلری؎ کی انتخابی مہم میں اپنا سارا زور لگادیں ورنہ ٹرمپ کی جیت کی صورت میں امریکہ کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔ کہ "ٹرمپـ"آج کے دور کا ہٹلر ہے۔۔۔اور جو امریکی قوم کو Vertical اور Horizontal۔۔۔بنیادوں پر تقسیم کردے گا۔۔۔اگر اس تقسیم کو مزید واضع کیا جائے تو اس کے لئے Polarizationسے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اس سے قبل امریکی انتخابات میں نہیں دیکھا گیا۔۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ۔۔۔ جس کی شہرت اس کی بے پناہ دولت۔۔۔ امیگرنٹ۔۔۔ اور خواتین سے نفرت کے حوالے سے تھی۔ بہر حال۔۔۔ "وہ آیا۔۔اُس نے دیکھا۔۔اور فتح کرلیا ۔۔"
ہیلری کلنٹن اور صدر بارک اوبامہ کے بارے میں واشنگٹن کے پنڈت یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سارے دورمیں Deliver نہیں کیا۔۔ دولت اور طاقت سے مالا مال وائٹ ہاؤس کے مکین نے جہاں ۔۔۔امریکہ کو معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑاکر دیا جس کے سبب ایک کروڑ سے زیادہ امریکی غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔۔۔وہیں خارجی محاذ پر لیبیا،عراق اور شام پر جس طرح چڑھائی کی گئی۔۔۔ اُس کے ردِعمل میں ISIS جیسی دہشت گرد تنظیم کا جن بوتل سے باہر آیا۔۔۔ اور جو آج اُسامہ کی القاعدہ سے زیادہ بڑا خطرہ امریکہ بلکہ ساری مغربی دنیا کے لئے بن گیا۔۔۔
جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو انہوں نے کبھی اپنے خیالات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ اُن کے اس نعرے نے کہ "امریکہ کو واپس اپنا وقار دلائیں گے"۔۔۔واقعی ہفتوں مہینوں میں امریکوں کو جگادیا۔۔۔ اُس کے بعد انہوں نے ٹرمپ کی بڑھکوں،بلکہ گالیوں تک کو مخصوص انداز میں کندھے اچکاتے ہوئے So What کہہ کر درگزر کر دیا۔۔۔ نیویارک۔۔واشنگٹن میں الیکشن سے ہفتہ بھر پہلے جو بھی افریقن ۔۔ہسپانوی ۔۔میکسیکن۔۔عرب اور پاکستانی ملتا اُس کا ایک ہی جواب ہوتا " Trump " سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ اُن کے مقابلے میں سفید فام امریکی اول تو بہت زیادہ Vocalنہیں ہوتے۔۔ اگر جواب بھی آتاتو ایک معنی خیز مسکراہٹ اور اس جملے کے ساتھ " Let's See "ََ۔۔۔امریکی انتخابات کے نتائج جیسا کہ میں نے ابتداء میں لکھا "حیران کن" ہی نہیں" ششدر"کردینے والے تھے۔۔۔
8نومبر یعنی انتخابات کی شام جب ابتدائی انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے توانڈیانا میں تو80/20کا فرق تھا ہی کہ یہ ریپبلیکن کاروایتی گڑھ تھا مگر جب ڈیموکریٹ کے گڑھ فلاڈلفیا میں فرق صرف ایک دوفیصد کا آنا شروع ہوا تویہ ٹرینڈ۔۔۔رات گئے تک جاری رہا۔۔۔ امریکہ کی 50میں سے 30ریاستوں میں ٹرمپ الیکٹورل ووٹنگ میںساری شب سر پٹ دوڑتے رہے ۔۔۔الیکشن میں کامیابی کے اگلے ہی دن ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں کہا30" لاکھ امیگرنٹ کو جیل جانا پڑے گا یا اپنے گھر۔۔۔" ٹرمپ کے اس بیان کے بعد امریکی سوسائٹی میں واضع طور پر نسلی،لسانی اورمذہبی دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں۔۔یہ ایک National Identity Crisis ہے۔۔۔امریکی معاشرے پر ا س کے دیرپا اور دور رس نتائج پڑیں گے۔۔۔زیادہ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان سمیت مسلم دنیا ابھی تک اس بات کا ادراک ہی نہیں کر پارہے کہ وہ ٹرمپ کی جیت پر قہقہے گائیں یا آنسوبہائیں۔۔۔۔