فل سٹاپ

Nov 17, 2017

محمد سلیم

وہ اس بات پر مْصِرتھا کہ پاکستان میں عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسی شخصیات پر فل سٹاپ لگ گیا ہے جس کے لئے اس نے اپنے طور پر بہت ساری دلیلیں بھی جمع کررکھی تھیں۔ واک کے بعد تھوڑی دیر کے لئے اس نے ریلیکس کیا اور اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے میز پر جھکا پانی کا گلاس اٹھایا اور دوگھونٹ پینے کے بعد گویا ہوا کہ جہاں پر احساس جاتا رہا وہاں سے انسان دوست ہستیاں بھی منہ موڑ لیتی ہیں کونسا شعبہ ایسا ہے جہاں پر انسان ایک دوسرے کا استحصال نہیں کر رہے حالانکہ احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جو حیوان اور انسان میں فرق ظاہر کرتی ہے۔ اپنا درد تو جانور بھی سمجھ لیتا ہے انسان وہ ہے جو دوسرے کا درد سمجھے اور اس کے دکھ کیلئے کچھ مداوا کرے۔ 

درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
اپنی گفتگو کے دوران اس نے درخت کی چھائوں میں بیٹھے کوئوں کو دیکھا جو اپنے قریب گھومنے والی بلی کو دیکھ کر ایک دوسرے کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے کائیں کائیں کر رہے تھے۔ پرندے جس طرح سے ایک دوسرے کی حفاظت کے لئے شور کر رہے ہیں یہ ہے وہ احساس جو انسان کو کرنا چاہیے۔۔۔ ندارد
انسان نے تو اپنے مالی فائدے کی خاطر جس بے دردی سے سالوں پرانے درختوں کا قتل عام کیا کیا وہ کسی سے پوشیدہ ہے آج اس لالچ کی وجہ سے ہم لوگ سموگ جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ درختوں پر پرندوں کی مختلف آوازیں انسان کو وہ توانائی فراہم کرتی تھیں جس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے اگر انسان کو انسان کا احساس ہوتا تو یوں سرعام کسی کی جرائت نہ ہوتی کہ وہ ترقیاتی کاموں کے نام پر شجر گراتے اور ان کی جگہ پر متبادل کا انتظام بھی نہیں کیا گیا۔ تکلیف دہ لہجہ میں اس نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ جب کسی انسان پر ظلم ڈھایا جاتا ہے تو اس کی مدد کی بجائے اس پر چپ رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں کہ کونسا اس کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے جو وہ پرائی آگ میں چھلانگ لگائے۔ اگر میرے خلاف کوئی اقدام اٹھایا جائے گا تو پھر واویلا کرنا اس کا حق ہوگا کہ یہ ظلم عظیم ہے اور ویسے بھی فی زمانہ لوگ اس وقت ہی کسی مسئلہ کے حل کر طرف توجہ دیتے ہیں جب اور ان کے لئے تکالیف لے کرآتا ہے بصورت دیگر اس سے آنکھیں چرانا تو بہت آسان ہے۔ اپنے دلائل میں وزن پیدا کرنے کے لئے یہ بتایا محترم اشفاق صاحب نے کہا تھا کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں توصبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کو دنیا میں لوگ مسیحا مانتے ہیں جو خدا کی عطا کردہ زندگی کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن احساس کے یہ پیکروں حکومتی پالیسیوں کا غصہ اکثر غریب عوام پر نکالتے ہیں اور ایمرجنسی جیسے وارڈز میں بھی اپنی خدمات فراہم کرنا بند کردیتے ہیں جو ظلم کے مترادف ہے ایک ڈاکٹر فائو تھیں جنہوں نے کوڑھ جیسے موزی مرض میں مبتلا لوگوں کی بے لوث خدمت کی نہ تو انہوں نے حکومتی پالیسیوں یا مراعات کا رونا رویا اور نہ ہی کسی بھی حالت میں انہوں نے مریضوں کا علاج کرنا بند کیا اور کوڑھ کا مرض بھی ایسا تھا کہ اپنے اپنوں کے پاس آنے سے ڈرتے تھے لیکن ڈاکٹر فائو اس مرض سے نہیں ڈریں بلکہ پاکستان میں پھیلے اس مرض کے خوفناک پنجوں کے خلاف سینہ سپر رہیں اور آج ان کی وجہ سے ہی پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں پر کوڑھ پرقابو پایا جاچکا ہے۔ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لئے ہسپتالوں کو کام نہیں کرنے دیتے اور وکیل عدالتوں کے باہر دھرنا دیتے ہیں تاکہ ان کے مطالبات کو مانا جائے ایسے میں غریب عوام کدھر جائے کہاں پر دھرنا دے،کس سے فریاد کرے،کس سے منصفی چاہے کیونکہ حالات جو بھی ہوں حقوق غریب عوام کے ہی پامال ہو رہے ہیں اور کون ان کا مداوا کرے گا مسیحا یا انصاف کا رکھوالا یا نظام مملکت چلانے والے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم لوگ اپنے منافع کی خاطر نئی نسل کو بھی نہیں بخش رہے اور مشروبات، دودھ اور کھانے کی مختلف اشیاء کے ذریعے نئی نسل کی رگوں میں زہر اتار رہے ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی طرف سے مختلف علاقوں میں اپریشن کے دوران زہریلا دودھ، ملاوٹ شدہ مصالحہ جات ، ٹافیاں، چپس اور جعلی مشروبات پکڑے گئے مگر ملاوٹ مافیا اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ پکڑائی میں نہیں آرہا ہے نئی نسل کو زہر سے بچانے کے لئے فوڈ اتھارٹی کے سربراہ نورالامین مینگل نے تعلیمی اداروں کے قریب انرجی و کولا مشروبات کی فروخت پر 14اگست سے پابندی عائد کردی ہے۔ پانی کا ایک اور گھونٹ پینے کے بعد وہ بولا کہ جہاں پر ملک کی کئی سالوں تک خدمت کرنے والے بزرگوں کو پنشن اس طرح دی جارہی ہو جیسے خیرات۔۔۔ معذوروں کی سہولت کے لئے کسی بھی جگہ کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا کیا یہ تمام مثالیں اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم نے انسان دوست ہستیوں پر فل سٹاپ لگا دیا ہے۔ آج کی نسل اس بات کو ماننے سے انکاری ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام دولت کے بغیر ہو سکتا ہے حالانکہ ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ انسان کے لئے سب سے ضروری چیز زندگی میں یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا کوئی مثبت مقصد بنائے اور پھر اس کے حصول میں دن رات ایک کردے پھر نہ تو پیسہ اس کے لئے مسئلہ رہے گا اور نہ ہی مقصد کا حصول، عبدالستار ایدھی نے ایک بڑھے مقصد پر عمل پیراہوکر دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی اور اگر آپ نے کے حالات زندگی پر نظر دوڑائیں تو انسان یقیناً یہی کہے گا کہ ایدھی نے جو کردکھایا وہ ناممکن تھا لیکن انسانیت کا درد رکھنے والوں کے لئے رب زوالجلال نے کچھ بھی ناممکن نہیں رکھا۔ ایدھی کی والدہ ان کو کھانے کے لئے دو روٹیاں دیتی تھیں ایک اپنے لئے اور ایک اس کے کلاس فیلو کے لئے یہ تھی تربیت احساس انسانیت پیدا کرنے کی مگر اب تو بچے بھی اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ مائیں ان کے ٹفن میں ان کے دوستوں کا کھانا رکھتی ہیں مگر وہ بارٹر سسٹم مطلب کچھ لوکچھ دو والا معاملہ کرتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نصاب میں انسانیت کے درد کو جگانے والے اسباق شامل نہیں کریں گے اس وقت تک احساس نہیں منافع کمانے اور دولت جمع کرنے کی حوس بڑھتی رہے گی ہم دنیا کی دولت مندوں کی فہرست میں تو شاید جگہ نہ بناسکیں مگر احساس سے عاری قوموں کی فہرست میں ہمارا نام نمایاں ضرور ہوگا۔ عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر فائو نے دولت نہیں انسانیت کی خدمت اور احساس کے ذریعے نام کمایا اور دلوں میں جگہ بنائی۔ نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مزیدخبریں