جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے لہجے میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے اب وہ کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں۔ لندن میں ان کے قیام کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ان سے ملاقات کا بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ یہ دونوں حضرات، میاں نواز شریف کو ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
نظرثانی اپیل مسترد کیے جانے پر تفصیلی فیصلہ آیا تو میاں نواز شریف کے غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس فیصلے کو دیکھا جائے تو یہی لگ رہا ہے جیسے ان کے پوچھ گئے سوال ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا شافی جواب ہے۔ جواب الجواب کا سلسلہ جاری ہوا۔ اس پر ن لیگ کی طرف سے خاصی تنقید ہوئی اور میاں نواز شریف نے اسے کھل کر تعصب کا مظاہرہ قرار دیا۔ ان کے الفاظ تھے کہ فیصلے میں تعصب اور غصہ کھل کر ظاہر ہو گیا۔بدھ کے روز میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی ہوئی تو اس میں وہ بھی برہم دکھائی دئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سزا دی نہیں، دلوائی جارہی ہے۔ نظرثانی اپیلوں کو مسترد کیے جانے کے فیصلے میں واضح پیغام تھا کہ نواز شریف کو سزا دینی ہے۔‘‘ وہ یہاں بھی مبہم بات کرگئے۔ یہ سب کون کررہا ہے اور اس کی پشت پر کون ہے، حکومتی راہنمائوں سمیت سب کے پاس اس کا جواب ہے، لیکن کوئی یہ رسک لینے کو تیار نہیں۔
اگر میاں نواز شریف یہ جانتے ہیں کہ سزا دلوائی جارہی ہے، تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سزا کون دلوارہا ہے؟ اگر وہ مسلسل اسی طرح ابہام سے بھرپور باتیں کرتے رہے، تو ایک وقت آئے گا کہ لوگ ان باتوں کو غیرسنجیدہ لینا شروع کرلیں گے۔ میاں نواز شریف نے فیصلہ کرلیا ہے تو انہیں ہمت کرکے ان لوگوں کا نام لے لینا چاہیے، جو ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اگر انہیں سزا دلوانی ہی ہے تو کم ازکم انہیں یہ احساس تو نہیں رہے گا کہ مجھے بغیر کسی جرم کے سزا دی گئی۔بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہوتا ہے کہ آخر نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ہی حالات کیوں خراب ہوجاتے ہیں؟ ایک کھانے کی میز پر جب ان سے یہ سوال کیا گیا تو جواب یہ تھا: اب بھی وجہ وہی بنی جس نے 1999ء کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ 99ء میں میاں نواز شریف کی حکومت فوجی حکمران نے ہی برطرف کی تھی اور ان کی پشت پر ان کا پورا ادارہ کھڑا تھا۔ ان کی اس منطق کا سیدھا سادا جواب تو یہی بنتا ہے کہ آج بھی وہی ادارہ ان کے خلاف سازش میں مصروف ہے!اس سے پہلے بھی میاں نواز شریف نے جب، جے آئی ٹی پاناما کی تحقیقات کررہی تھی، اُسی دوران نوازشریف نے کہا تھا کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نہیں چل سکتا۔ اختیار کسی اور کے پاس ہو، یہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے لگتا ہے کہ معاملہ اختیارات کا ہی تھا۔ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ نواز شریف جو کچھ کہہ رہے ہیں، اسے اب منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ نااہلی کے فیصلے کے فوری بعد نوازشریف نے جی ٹی روڈ سے جس مہم کا آغاز کیا تھا، اب اس کو جلسوں میں تبدیل کررہے ہیں۔ ایبٹ آباد کا جلسہ پہلا ہوگا۔
نوازشریف کی اس مہم کا مقصد کیا ہوگا اور جو بیانیہ انہوں نے جی ٹی روڈ پر دیا تھا، کیا اسے مزید وضاحت سے بیان کریں گے؟ ان کے اس ’’احتجاجی جلسوں‘‘ سے انہیں کتنا فائدہ ہوتا ہے یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا۔ لیکن اسے زیادہ مقبولیت ملنے کی اُمید اس لیے نہیں رکھی جاسکتی کہ نواز شریف ایک طرف حکومت میں ہیں، دوسری طرف ’’اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کرنے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں روایت یہی ہے کہ احتجاجی جلسے حکومتوں کے خلاف ہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ نواز شریف اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی خلاف کیسے مہم چلاسکتے ہیں؟ اس سے پہلے مریم نوازنے ووٹ کے نام سے مہم شروع کی تھی۔ اب کمپین سے نوازشریف کیا حاصل کرتے ہیں؟ فی الحال ایسی کوئی آپشن نظر نہیں آتی کہ نوازشریف کو ریلیف مل جائے۔ البتہ مسلم لیگ ن کی سیاست میں عوامی ہمدردی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے اگر نواز شریف کوئی حقیقی اسٹینڈ لیں۔