(گزشتہ سے پیوستہ)
قومی پالیسی بناتے وقت عمیق عناصر پرغور و غوض کیا جاتا ہے جونتیجتاًاہم ترین بنیاد بن جاتی ہے لیکن اُس پر عمل کرنے میں بیشمار خدو خال ہوتے ہیں۔ جن کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ آپریشنوں کے دوران نئے مسائل نمودار ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کیلئے پہلے سے تیاری ہونی چاہئے اور اتنی قابلیت اور صلاحیت ہونی چاہئے کہ اُنکا آسانی سے سد باب کیا جا سکے۔ پاکستان نے فیصلہ تو کرلیا کہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان سے سوویٹ یونین کو نکال دیا جائے لیکن ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ ایک سپر پاور کیخلاف اتنا بڑا معرکہ کیسے لڑا جائے؟ کیا امریکہ اپنی افواج اتارے گا؟ یا یہ کہ پاکستان اپنی افواج افغانستان بھیجے گا؟ یا یہ کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی فوجیں آ کر لڑائی کرینگی؟ یا یہ کہ افغان مہاجرین میں سے لوگوں کو ملٹری ٹریننگ دیکر تیار کیا جائے اور وہ جا کر اپنے ملک کو آزاد کروائیں۔ فوجیں کھڑی کرنے کیلئے وقت درکار تھا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ جنر ل ضیاء الحق فوج میں رہ کر 1948ء ، 1965اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ وہ کتابی قسم کے آفیسر تھے۔ اُنکی ذاتی شخصیت میں نمایاں عنصر یہ تھا کہ وہ پاک صاف اور دینی تھے۔ نہ اُنہیں انگریز پسند کرتے تھے اور نہ انگریزوں کی طرز کے پاکستانی بالا کمانڈر۔عرفاََ مولوی کہلاتے تھے۔ فلسطینیوں کو اردن میں مروانے کی وجہ سے اور ذوالفقا ر علی بھٹو کو پھانسی دینے کی وجہ سے بدنام تھے۔
لیکن اس مولوی نے افغانستان کی جنگ کی حکمت عملی اور طریقہ کار میں کمال کی لیاقت اور عمدہ ملٹری سٹرٹیجی مرتب کرنے کا مظاہرہ کیا۔ ایک انوکھا طریقہ جس کی مثال نہ تھی اور نہ ابھی تک کہیں دہرائی گئی ہے۔ جنگ کی Cause احکام الہی کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ رکھی گئی۔ امریکی (غیر مسلم )بوٹ نہیں آئینگے۔یعنی امریکا افغانستان پر قبضہ نہیں کریگا۔ ہتھیار امریکہ دیگا لیکن پاکستان کے ذریعے۔ جہاد افغانستان کے باشندے لڑیں گے۔ ملٹری تربیت اور آپریشنل رہنمائی پاکستان کریگا۔ (بذریعہ آئی ایس آئی) طریقہ کار گوریلا جنگ۔ پاک فوج براہ راست حصہ نہیں لے گی لیکن تیار رہے گی جب تک روسی سرحد پار نہیں کرتے۔
سوویٹ یونین کا افغانستان پر قبضہ کرنا مغربی دنیا کیلئے سخت خطرناک چال تھی۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی بجائے سوویٹ یونین ہوتا۔شرق وسطیٰ انکے زیرہوتا۔ پاکستان کی شمولیت کے سوویٹ یونین کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔ پس ضیاء الحق کے ہاتھ میں کنجی آگئی تھی۔ وہ امریکہ سے جو کچھ مانگتا وہ دینے کیلئے تیار تھا۔ لیکن ضیاء الحق کی نالائقی کہ بہت کم پر اکتفاء کیا۔ بہر حال اس جنگ کی بدولت ضیاء الحق کو بذات خود بھی فائدہ ہوا اور اُسکی حکومت اندرون ملک اور بیرون ملک مستحکم ہو گئی۔
ہمارے لئے خصوصاََ غور طلب بات ہے کہ اس وقت پاکستان کی باقی سیاسی قوتیں جو 1947ء سے 1988ء تک حکومت کرتی رہی تھیں ۔ وہ خود یا انکے پارٹی والے اس قومی اور دینی فریضے میں شریک نہ تھے ۔ خیبر پختون خوا کے عوام نے بھی بہت بڑی تعداد میں حصہ لیا لیکن عوامی نیشنل پارٹی جو پٹھانوں کے حقوق کی علمبردار جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اُنہوں نے تو سوویٹ یونین کے افغانستان پر قبضہ کو حق بجانب قرار دیا اور وہاں مزاحمت کی مخالفت کی۔ حتیٰ کہ خان عبدالغفار خان کی رحلت پر انہیں اُنکی وصیت کے مطابق اُس وقت کے محکوم افغانستان میں ہی دفنایا گیا تھا۔ لینن انعام یا فتہ لوگ خاموشی سے روسیوں کا انتظار کرتے رہے ۔ افغانوں کے خون پر نہ کوئی مرثیہ اور نہ سوگ۔
افغانوں اور پاکستانی مجاہدین کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے جہاد افغانستان میںاز خودحصہ لیا۔ اس جہاد میں وسط ایشیا کے ممالک سے بھی کثیر تعداد آئی۔ مسلمانوں کے امیر ممالک نے حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر بھی خوب سرمایہ لگایا۔اُنہی میں سے ایک شخصیت اُسامہ بن لادن تھے جو اعظم مجاہدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ جذبہ ایمانی تھا جو یہاں عروج پر تھا۔ امریکہ کی دی امداد اور ہتھیار خصوصاََ سٹنگر میزائل روسی طیاروں کیخلاف بہت کار آمد ثابت ہو ئے تھے۔ پاکستان کو متعدد فوائد حاصل ہوئے۔
اول:ملک کے اندر ضیاء الحق نے جنرل الیکشن کروا کر محمد خان جونیجو کی سربراہی میں ایک عمدہ حکومت چلائی۔ دوم:امریکی صدر ہر سال سرٹیفیکٹ دیتا رہا اور پاکستان اپنے جوہری منصوبہ پر کامیابی سے کام کرتارہا بلکہ یہ کارنامہ تقریباََ مکمل ہو چکا تھا۔ سوم:پاکستان کی معیشت کو بیرونی امداد میسر ہوتی رہی اوربہتری کی طرف گامزن رہی۔ ہم افغانستان کے مہاجرین کا وجود برداشت کرنے کے قابل رہے۔ چہارم: پوری دنیا نے پاکستان کے رول کی تعریف کی لیکن جو پذیرائی دنیا کے مسلمانوں نے دی وہ لاجواب تھی۔ پاکستان ’’اسلام کا قلعہ‘‘ بن رہا تھا اور اس قلعہ کی بدولت اسلامی ’’نشاۃ ثانیہ ‘‘ کا خواب حقیقت بنتے نظر آنے لگا تھا۔ پنجم: افغانستان کے باشندوں نے ، چاہے مشرقی حصے کے پٹھان ہوں۔ وہاں کے اہل تشیع ہوں یا شمالی علاقوں کے لوگ ہوں سب نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہوا تھا ۔یہ سب پاکستان کے انصاروں جیسے رول کی وجہ سے شکر گزار تھے ۔ جسے وہ تا قیامت نہیں بھولیں گے۔ جنرل ضیاء الحق کے ہوتے ہوئے افغانی راہنما سویٹ یونین کے انخلاء کے بعد بھی متحداور کنٹرول میں رہتے تو اُنکے مسائل حل ہوجانے کا امکان تھا۔ ششم: 1971ء کی مایوسی کے بعد کشمیر کے عوام میں پاکستان پر بھروسہ قائم ہوا۔ ہندوستان کے سکھوں کے جذبہ حریت نے سراُٹھا لیا تھا۔ پاکستان مرعوبیت سے نکل کر اب ہندوستان پر حاوی ہوگیا تھا۔ہفتم:پاکستان کاوقاراندرون اور بیرونی دنیا میں بلند تھا ۔ معیشت او ر دفاعی لحاظ سے ، دین اسلام کا بول بالا اور امن و امان کے لحاظ سے عروج پر تھا۔ اپنے ملک کی سیکیورٹی، دین اسلام کے احکام پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں جہاد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جیسا پہلے کبھی نہ تھا۔ ّاس جنگ افغانستان کے بعد پاکستان باوقار ملک گناجانے لگا۔ کیا اُس وقت کوئی ’’ایسی بکواس کر سکتا تھا کہ’’پاکستانی دو ٹکوں کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچنے سے دریغ نہیں کرینگے‘‘؟
لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اُن کے ساتھی ’’ دین اسلام کی طاقت ‘‘ کودیکھ کر خائف اور حاسد ہو گئے تھے انہوں نے اس طاقت کو زائل کرنے کیلئے تھیوریاں اور منصوبے بنانے شروع کر دیئے۔ ہمارے تیسری دنیا کے ممالک میں ادارے مضبوط کرنے میں دیر لگتی ہے اس لئے شخصیات کی اہمیت زیادہ ہو تی ہے۔ اُنہوں نے سوچا کہ اسلام کی سر بلندی جیسی کیفیت کاکرتا دھرتا جنرل ضیاء الحق ہی ہے۔اس شخص کے ہوتے ہوئے اُنکی دال نہیں گل سکے گی۔ اُنہوں نے سوویٹ یونین کی شکست کو یقینی ہونے کے بعد اس اسلامی قلعہ میں شگاف ڈالنے کی ٹھان لی۔ اُنہوں نے ضیاء الحق کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہی ضروری سمجھا ۔بس دیر نہ لگی اور 17اگست 1988ء کو یہ کام مکمل کر لیا گیا۔ اُنکی یہ چال نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کیلئے زہر قاتل ثابت ہوئی۔ اُسکے بعد پاکستان احمقوں کے ہاتھوں چلا گیا جو یکے بعد دیگر ے اس عظیم قلعہ کو مسمار کئے جارہے ہیں۔