کیا چیئرمین سینٹ پر انگلی اٹھانا مناسب ہے : رضا ربانی‘ کابینہ میں سنجرانی کے کنکٹ سے متعلق بات نہیں ہوئی : محمد علی

Nov 17, 2018

اسلام آباد (نامہ نگار) ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان نے چیئرمین سینٹ کی جانب سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سینٹ میں داخلے پر پابندی سے متعلق رولنگ پر دئیے گئے ردعمل پر تشویش کا اظہار کیا اور وزیر اطلاعات کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ صرف سیاستدان کرپٹ نہیں، معاشرے کا ہر فرد کرپٹ ہے، یکطرفہ احتساب نہیں، تمام اداروں کو حساب دینا پڑے گا۔ نیب کیسز کیلئے وفاقی احتساب کمشن بنایا جائے جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ کابینہ اجلاس میں چیئرمین سینٹ کے کنڈکٹ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، دونوں ایوانوں میں اخلاقیات پر مبنی کمیٹی بنا دیتے ہیں۔گرما گرمی کی نوبت پھر نہیں آنے دیں گے۔ جمعہ سینٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ان ارکان کی ہے جنہوں نے اپنی ساری جدوجہدآمریت کے خلاف کی ہے۔ پچھلے پانچ چھ روز سے مجھے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جس عمارت میں ہم موجود ہیں اس میں مجھے دراڑیں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ان دراڑوں کو پورا کرنا شاید حسن ناصر کا خون بھی پوار نہ کر سکے اور یہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خون سے بھی نہ بھری جاسکیں، جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ فسطائیت کی قوتوں کو چھوڑا گیا ہے تاکہ ان دیواروں، اداروں اور آئین کے تحت کام کرنے والے عہدوں کو ملیا میٹ کر دیں، لیکن میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں اگر خدانخواستہ یہ عمارت گری تو اس کے ملبے سے بہت کم بچ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ کے چیئرمین نے ایک رولنگ دی ہے اور اس کے بعد جو ردعمل آیا ہے، اس میں وزیر اعظم کا نام لیا گیا ہے لیکن میں وزیر اعظم کو شک کا فائدہ دوں گا، میں نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم ایسی بات کر سکتے ہیں، کہا گیا کہ کابینہ نے چیئرمین سینٹ کی بات کو ہلکا لیا ہے، کسی آمر کے دور میں بھی چیئرمین سینٹ کی رولنگ پر سوال نہیں اٹھایا گیا،حتی کہ مشرف نے بھی کبھی چیئر مین سینیٹ پر انگلی اٹھانے کی جرا¿ت نہیں کی ۔ کہا گیا کہ اگر سینٹ سمجھتی ہے کہ وہ وزراءکے بغیر کام کر سکتی ہے تو کابینہ بھی سوچے گی کہ اس کو کیا کرنا ہے، بالواسطہ طور پر یہ دھمکی دی گئی ہے کہ کابینہ سینٹ کا بائیکاٹ کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت کابینہ سینٹ اور قومی اسمبلی کو جوابدہ ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم نے ایسی بات کی ہو گی لیکن اگر کابینہ سینٹ کا بائیکاٹ کرنے پر بضد ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا بھی کہا گیا کہ چیئرمین بالواسطہ طور پر منتخب ہوا ہے ،سینٹ الیکشن کا طریقہ کار آئین میں طے ہے ہمیں صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی ہیں، کہا جاسکتا ہے کہ یہ بالواسطہ انتخاب ہے اگر یہ کہا جائے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ صدر پاکستان کس طرح براہ راست منتخب ہوتا ہے، ان کا انتخاب بھی تو بالواسطہ ہے اگر آپ اس پر دلائل کو پھیلانا چاہیں تو جتنا مرضی پھیلا لیں، اگر اس طرح ہے تو پھر وزیراعظم کو بھی ان کے آفس تک ممبران اسمبلی پہنچاتے ہیں یہ انتخاب بھی بالواسطہ ہی ہوتا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ ایساکبھی نہیں ہوا، کسی آمر کو بھی اس بات کی جرات نہیں ہوئی تھی کہ سپیکر یا چیئرمین پر انگلی اٹھا سکے، آج چیئرمین سینٹ کی رولنگ پر بات کی جا رہی ہے، کیا یہ مناسب ہے کیا ہم جمہوریت کو آگے بڑھا رہے ہیں، میں نہیں مانتا کہ وزیراعظم یا کابینہ نے ایسی بات کی ہو وہ اس طرح آئین کی دھجیاں نہیں اڑا سکتے۔ صرف دو تین پارٹیوں کا ہی احتساب کیوں ہو رہا ہے اور سیاسی لوگ ہی کیوں اس احتساب کے عمل میں آرہے ہیں ،کیا اس معاشرے میں سیاستدانوں کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا ہے۔ آئیے ہم احتساب کی بات کرتے ہیں اس منصب پر بیٹھ کر میں نے خط لکھا تھا کہ بلا تفریق احتساب ہو آپ کیوں بھاگ گئے تھے؟ اس ملک میں یکطرفہ احتساب نہیں چلے گا، سول ملٹری بیوروکریسی کا بھی احتساب ہونا چاہئے، میں نے وفاقی احتساب کمیشن کی تشکیل کی تجویز دی تھی جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہو نگے۔ سیاستدان بھی اور سول ملٹری بیورو کریسی بھی، میں نہیں کہتا کہ وہ اپنے دوسرے معاملات بھی یہاں لے کر آئیں لیکن ایک قانون ہونا چاہئے نیب اس کمشن کے نیچے کام کرے اور یہ کمشن فیصلہ کرے کہ آیا ریفرنس دائر ہونا ہے یا نہیں، اگر ہونا ہے تو کتنے عرصے میں اس کو ختم ہونا ہے۔ کیوں ہمارے پر جلتے ہیں کیوں صرف سیاستدانوں کی بات کی جاتی ہے اس لیے کہ وہ آسان شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کی جڑ کو ختم کریں۔ اس بات پر مجھے افسوس ہے کہ بہت سے دوست ایسے ہیں جو جدوجہد کی بھٹی سے نکل کر آئے ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان کے ساتھ ایسے لوگوں کو پیوست کر دیا گیا جن کا تعلق مشرف کی کابینہ سے تھا۔ جب میں پرویز مشرف کی کابینہ کے لوگوں اور سینٹ کی دیواروں میں آنے والی دراڑوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ وقت بھی یاد آجاتا ہے، مجھے بارہ مئی یاد آتا ہے، وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یاد آتا ہے جب پرویز مشرف اپنے خطاب کے بعد مکا اٹھا کر اپوزیشن کی طرف لہرا رہے تھے، یہاں گٹھ جوڑ ہے، ایک فاضل وزیر نے پہلے سپارکو والوں کے ذریعے سیاستدانوں کو اوپر بھجوانے کی بات کی، اوپر بھجوانے کا مطلب تو ختم کردینا ہے، اور اس کے بعد اسی وزیر نے اس ہاﺅس کے چیئرمین کے لیے کہا کہ دیکھ لیں گے، اگر کسی جھگڑے میںکہا جائے کہ میں آپ کو دیکھ لوں گا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس طرح تو ہم نے مارشلائی دور میں بھی ایوان کا تقدس پامال ہونے نہیں دیا، اب بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس کا دفاع کریں گے۔ اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں چیئرمین سینٹ کے کنڈکٹ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صفوں میں کوئی انتشار نہیں ڈال سکتا تمام ادارے ایک پیچ پرہیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں اخلاقیات پر مبنی کمیٹی بنادیتے ہیں۔ ماضی میں جنہوں نے ان ایوانوں کو دھمکیاں دیں وہ کہاں ہیں اب بھی جو اس بارے سوچے گا تو یہ ایوان یہیں ہوں گے لیکن وہ لوگ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے واضح کیا کہ کابینہ میں کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑوں گا۔ مولابخش چانڈیو نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ غلط بیانی کرنے پر وزیر کے خلاف ایکشن لیں، اگر کل کی بات وزیراعظم نے نہیں کی تو انہیں مبارکباد۔ باقی کابینہ کے ارکان بھی تو بولتے ہیں ایک وزیر کے بولنے پر ہی ماحول خراب کیوں ہوتا ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ سینٹ میں کشیدگی کی وجہ پی ٹی وی کی طرف سے سینٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنا ہے، سینٹ کی کارروائی سے جو باتیں حذف کرائی جاتی ہیں وہ سوشل میڈیا پر آجاتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے ٹیلیفون پر رابطہ کےا ہے اور ان سے وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی کا معاملہ افہام تفہیم سے حل کرنے پر بات چےت کی ، وزیر اعظم نے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ کو ایوان چلانے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس موقع پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ وزیراطلاعات فواد چودھری سے کوئی ذاتی تنازعہ نہیں ہے، ان کے جارحانہ رویئے سے ایوان چلانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین سینٹ نے معاملات افہام تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا، سینٹ سیکرٹریٹ کے مطابق چیئرمین سینٹ کو وزیر دفاع نے وزیراعظم کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی نے کہاہے کہ چیئرمین سینٹ کی جانب سے وزیر اطلاعات کے ایوان میں داخلے پر پابندی غیرمعمولی اقدام تھا، وزیراعظم نے بحران کے حل کی ذمہ داری وزیر دفاع پرویز خٹک کو سونپی جنہوں نے خوش اسلوبی سے معاملہ سلجھادیا، معاملے کو سلجھا کے حکومتی مو¿قف میں کوئی کوتاہی یا تضاد نہیں، وضاحتی بیان میں انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی ساکھ مجروح ہونے دیں گے نہ ہی کرپشن کے خاتمے پر کوئی سمجھوتہ کریں گے ۔

سینٹ

مزیدخبریں