پچھلے چالیس سال میں ایوان صدر میں دو طرح کے صدور فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ انتہائی بااختیار اور طاقتور صدور جن میں صدر جنرل ضیاءالحق‘ صدر غلام اسحاق خان‘ صدر فاروق لغاری اور صدر جنرل پرویز مشرف بااختیار صدور تھے۔ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف تو فوجی صدر تھے۔ ان دونوں کے ادوار میں ملک میں پارلیمانی نظام برائے نام تھا۔ دونوں طاقت کا اصل سرچشمہ تھے۔ صدر غلام اسحاق خان جو ایک سول بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاءالحق کی حادثاتی موت کے بعد ملک کے صدر بنے‘ انہیں آئین کی آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت جسے 1985ءمیں جنرل ضیاءالحق نے آئین میں شامل کرانے کے بعد مارشل لاءاٹھایا تھا آئینی اعتبار سے طاقتور صدر تھے۔ اسحاق خان نے بطور صدر آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو گھر بھیج دیا تھا‘ عبوری حکومتیں قائم کیں‘ انتخابات کرائے اور نئی حکومتیں بنائیں۔ غلام اسحاق خان جب نواز شریف کے ساتھ تنازعہ میں مستعفی ہوئے تو ان کی جگہ 1993ءمیں پیپلز پارٹی کے فاروق خان لغاری صدر بنے ان کے پاس بھی آرٹیکل (2) 58 بی کے اختیارات تھے۔ فاروق لغاری نے یہ اختیارات اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف استعمال کرکے اسے 1996ءمیں فارغ کر دیا۔ 1997ءمیں نواز شریف جب دوتہائی اکثریت سے وزیراعظم بنے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ بے نظیر کے تعاون سے آئین سے آرٹیکل (2) 58 بی کو نکال باہر کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آرٹیکل کے آئین سے خارج ہونے کے بعد اکتوبر 1999ءمیں فوج نے جنرل مشرف کی قیادت میں ٹیک اوور کر لیا۔
صدر زرداری نے 2008ءمیں صدر بننے کے بعد اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دئیے۔ 2008ءکے بعد پارلیمانی نظام مستحکم ہوا۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے ممنون حسین کو صدر بنوایا۔ صدر ممنون حسین ایک Ceremonial صدر تھے اور ان کے بعد تحریک انصاف نے اب ڈاکٹر عارف علوی کو صدر منتخب کرایا ہے وہ بھی پیشرو صدر کی طرح ہی ہیں۔
جمعرات کی شام صدر ڈاکٹر علوی نے اسلام آباد میں مقیم سینئر اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کے ایک گروپ کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ٹیلی ویژن کے Anchors کو بھی اس طرح کے ایک ڈنر پر مدعو کر چکے ہیں۔ جمعرات کی رات صدر ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے ساتھ بے تکلف گفتگو کی کیونکہ وہ سیاسی کارکن رہے ہیں اس لئے وہ سوالوں سے پریشان نہیں ہوئے۔ ان کے ساتھ والی نشستوں پر دائیں طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری اور بائیں طرف وزیراعظم کے خصوصی معاون افتخار درانی بھی موجود تھے۔ کئی مشکل سوالوں کا جواب دینے کے لئے صدر علوی نے فواد چودھری کو آگے کر دیا۔
صدر علوی سے پوچھا گیا وہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ اور اس کے باہر مسلسل محاذ آرائی کے خاتمے کے لئے کوئی کردار ادا کریں گے تو صدر نے یہ تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش موجود ہے جو ان کے لئے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ صدر نے کہا کہ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک سے کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کر کے آئی ہے اسے لوگوں نے ووٹ بھی اس لئے دئیے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن کے کئی اہم رہنما¶ں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں اور شاید مزید اپوزیشن رہنما اور سیاستدان احتساب کی زد میں آنے والی ہیں یہ شور شرابا اسی لئے بڑھ رہا ہے تاہم صدر علوی نے کہا کہ وفاق کی ایک علامت کے طورپر ان کی خواہش ہے کہ یہ محاذ آرائی کم ہو۔ صدر علوی سے جب استفسار کیا گیا کہ وہ حکومت اپوزیشن محاذ آرائی ختم کرانے میں کوئی کردار ادا کریں گے تو انہوں نے جواباً کہا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدر کا کہنا تھا کہ وہ ایوان صدر میں میلاد کانفرنس منعقد کر رہے ہیں جس میں وہ اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو مدعو کریں گے۔ صدر نے یہ خبر بھی دی کہ وہ پارلیمنٹ ہا¶س میں موجود صدارتی کمرے میں آئندہ سیشن سے بیٹھنا شروع کریں گے جہاں وہ ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کریں گے۔ پارلیمنٹ ہا¶س میں موجود صدر کے کمرہ میں اس سے پہلے صدر جنرل پرویز مشرف بھی بیٹھتے رہے ہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جو صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے میں صدر کی معاونت کر رہے تھے واضح کیا کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت بدعنوانی کے خاتمے کی اپنی مہم جاری رکھے گی اس وقت تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوں گے۔ وزیر اطلاعات نے یہ بھی بتایا کہ جعلی اکا¶نٹس کھول کر جس طرح تین ارب ڈالر سے زیادہ رقم باہر بھیجی گئی ہے اور اس سلسلے میں جس طرح پاکستان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اس کی تفصیل سامنے آئے گی تو لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ فواد چودھری نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ جب وزیراعظم سعودی عرب کے دورہ میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے مدینہ گئے تو وہاں مسجد نبوی میں لوگوں نے عمران خان سے کہا کہ پاکستان کو لوٹنے والوں سے کسی صورت میں رعایت نہ برتیں‘ ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لیں۔
ایوان صدر میں صدر علوی نے صحافیوں سے بات چیت میں یہ بھی کہا کہ گورنروں کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے ان کو فلاحی کاموں کے لئے جو ٹاسک دئیے ہیں ان پر بھی بعض سیاستدانوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ صدر علوی نے ان اعتراضات کو مسترد کیا اور کہا کہ اگر گورنر لوگوں کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تو اس میں کیا حرج ہے۔ پاکستان کے لوگ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ صحت‘ تعلیم‘ روزگار کے مسائل لوگوں کو گھیرے ہوئے ہیں ان مسائل کے خاتمے کے لئے حکومت کے ہر شعبہ کو اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔
صدر نے صحافیوں کو جو ڈنر دیا وہ بھی حکومت کی سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی کے مطابق ہی تھا۔ ڈنر میں بریانی‘ نان اور مٹن کی ڈشیں شامل تھیں۔ ایوان صدر میں ماضی میں جو ڈنر دئیے جاتے رہے ہیں ان میں پانچ چھ ڈشوں سے کم کبھی سرو Serve نہیں کی گئیں۔ کسی بیرونی شخصیت کے اعزاز میں دی گئی ضیافتیں تو درجنوں کورسز پر مشتمل ہوتی تھیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔