ایک ’’مثالی ریاست‘‘کا قیام فلاسفہ اور انبیاء کی زندگیوں کا مشن رہا ہے۔قوم لوط و عاد و ثمود پر ان کی اخلاقی و سماجی بدکارکیوں کی وجہ سے عذاب نازل کیا گیا۔قوم نوح ؑ بھی نذرطوفان ہوئی۔اصل وجہ یہ تھی کہ غارت گری،کذب دریا،کم تولنا،ملاوٹ اور دروغ گوئی ان کا وظیفہ وطیرہ تھا۔گویا یہ مثالی ریاست نہ تھیں بلکہ ظلم واستبداد کی ریاستیں تھیں اور اللہ نے ان پر کبھی پتھروں کی بارش کی،کبھی آندھی نے انہیں آگھیرا اور کبھی سیلاب بلاکر نذر ہوگئے۔عذاب الٰہی کا نزول اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اللہ ذات عدل و انصاف اور امن و امان کا معاشرہ دیکھنا چاہتی ہے۔نظام عدل ہی نظام فطرت ہے اور یہی منشائے الٰہیہ ہے ۔افلاطون نے بھی اپنی کتاب’’جمہوریہ‘‘میں مثالی ریاست کا جو نظریہ دریا ہے اس کی بنیاد بھی نظام عدل پر ہے گویا مثالی ریاست وہی ہوتی ہے جہاں سیاسی آزادی ،اقتصادی خوشحالی،سماجی انصاف اور مذہبی برداشت ہو۔مغربی مفکر جے ایس مل کی مشہور زمانہ کتاب ’’آزادی‘‘(The liberty)بھی مثالی معاشرے کے قیام کیلئے انسانی آزادیوں کے تحفظ پر ایک جامع اور فکر انگیز تحریر ہے۔سرمایہ دارانہ معاشرے اور نظام کے خلاف کارل مارکس نے آواز بلند کی اور اپنی فکر کے مطابق ’’اشتراکی ریاست‘‘کو مثالی ریاست قرار دیا گیا۔روس اور چین کی ریاستی نظریہ اشتراکیت پر استوار ہوئیں لیکن اس نظام میں آمریت اور یک جماعتی نظام نے اسے بھی ناکام کردیا کیونکہ یہ ’’ریاستی جبر‘‘کا نظام ہے۔اس میں حکمران امیر اور گلوم غریب ہی رہے۔سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام دو انتہائیں ہیں جنہوں نے انسان کو معاشی اور سیاسی استحصال کا شکار کردیا۔آجکل دنیا میں ناروے،سویڈن اور ڈنمارک کو مثالی اور فلاحی ریاستیں قرار دیا جارہا ہے کیونکہ ان سکینڈی نیوین ممالک میں سیاسی آزادی بھی ہے اور سماجی انصاف بھی ہے یہ فلاحی ریاستیں ہیں امن وامان ہے۔حقوق انسانی کاتحفظ ہے گویا مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں حقوق انسانی کاتحفظ ہو۔آیئے قرآن مجید سے رجوع کرتے ہیں اور مثالی ریاست اور مثالی معاشرہ کی بابت استفسار کرتے ہیں۔قرآن مجید کا بنیادی پیغام دو باتیں ہیں۔اقرار تو حید اور قیام نظام عدل ۔گویا یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کتاب رحمت و ہدایت و حکمت ہے قرآن کریم کا فی طب انسان ہے۔باربار ’’یاایھاالناس‘‘کہاگیا لااکرا فی الدین کا اعلان سورۃ بقرہ میں ہوا۔ اسلام دین مشاورت و مواخات ہے تکریم انسانیت کا باربار ذکر ہے۔سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 70 میں کہا گیا ’’یعنی ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ۔قرآن مجید نے احترام و آدمیت کا درس دیا۔بقول علامہ اقبالؔ
؎آدمیت احترام آدمی
باخبر شواز مقام آدمی
پیغمبر اسلام نے 622ء میں ‘‘میثاق مدینہ‘‘کے ذریعے پرامن فلاحی معاشرے کا نظریہ دیا۔آپ نے یہودیوں کے ساتھ یہ معائدہ کیا۔آپ کے پرامن اقدامات کی بدولت مدینہ کے متحارب قبائل اوس و خزرج میںامن اقائم ہوا۔ عیسائیوں کو مدینہ کی مسجد میں قیام اور عبادت کی اجازت دی۔مہاجرین مکہ جن میں بنوہاشم اور بنوامیہ کے افراد تھے ان میں ’’نظام مواخات‘‘قام کرکے بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔یہودیون کے قبائل بنونفیر،بنوقریظہ، سے سماجی سماجی مواخات اور ہم آہنگی کرکے اجتماعی نظام فلاح و صلاح معاشرہ کا تاقیامت نظریہ ریاست دیا۔قرآن مجید نے نظام عدل پر قائم مثالی ریاست کا نظریہ دیتے ہوئے سورہ المائدہ میں اعلان کیا۔انصاف کرو کہ یہی پرہیز گاری ہے۔گویا عادل کو پرہیز گار قرار دیا گا۔مثالی معاشرہ نیکو کاروں ،عادلین اور امانت داروں کا معاشرہ ہوتا ہے ۔سورۃ البقرہ میں فرمایا۔اور اسی طرح ہم نے تم کو امت و سط بنایا۔گویا امت معتدل بنایا۔اسلام افراط و تفریط سے پاک نظام اعتدال ہے اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں شخصی آزادی اور معاشی انصاف کو قائم کرنا ہوگا مذہبی انتہا پسندی ،فرقہ واریت ،رجعت پرستی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔پاکستان میں اسلامی نظام کو رائج کرنا ہوگا بانی پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار کا روشنی میں جمہوری فلاحی اسلامی ریاست کا قیام کرنا ہوگا علامہ اقبال کی شاعری اور پیغام کونئی نسل تک پہنچانا ہوگا۔علامہ اقبال نے انقلابی اور فلاحی ریاست کا نقشہ اپنے اشعار میں کھیچ دیا ہے۔فرماتے ہیں۔
؎نکتہ شرع مبیں این است و بس
کس نہ گردد درجہاں محتاج کس
شریعت محمدی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کا محتاج نہ ہو۔یعنی نظام ربوبیت و کفالت ہی فلاحی ریاست اور مثالی معاشرہ ہے۔اس سلسلہ میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں الاقوامی یونیورسٹی اسلام نے ایک نہایت ہی مفید کتابچہ بعنوان’’پیغام پاکستان‘‘شائع کیا ہے جس میں قرآن مجید کیا آیات سے یہ ثابت کیا گیا ہے اسلام میں مذہبی انتہا پسندی،فرقہ واریت اور جہاد ظلم کے خلاف ہوتا ہے نہ کہ پرامن شہریوں کا قتال جہاد ہے یہ جہاد نہیں بلکہ فتہ و فساد ہے جس کی معروض حالات پر بصیرت افروز تبصرہ ہے جولائق صد تحسین و آفرین ہے۔علامہ اقبال کے ہاں مثالی معاشرہ یا فلاحی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے جو ہر قسم کے استحصال سے مبرا و منزہ ہے۔شیخ الطاف حسین ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ’’اقبال اور اسلامی معاشرہ‘‘میں علامہ اقبال کے نظریہ عدل و مساوات پر بڑے عالمانہ اور محققانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔محمد یوسف عزیز کی کتاب’’شعاع اقبال‘‘ڈاکٹر ہارون الرشید کی تصانیف ’’اقبال جو اقبال ہے‘‘کے’’خزینہ اقبال‘‘قندیل اقبال‘‘فکر اقبال میں انسانی مسائل کا حل موجود ہے ۔ علاوہ ازیں اساتذہ قدیم میں ڈاکٹر یوسف حسن خان کی تصنیف’’روح اقبال‘‘ڈاکٹر انور سدید کی تصنیف’’اقبال شناسی اور اوراق‘‘ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی دو تصانیف فکر اقبال اور علامہ اقبال کے انقلابی اور فکری افکار پر قابل ستائش کتب ہیں۔علامہ اقبال نے نظریہ پاکستان کے علمی و عملی سطح پر اس فلاحی و مثالی ریاست کا نقشہ بھی دی دیا۔سرمایہ پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمہ کے لئے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا
؎گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
جاگیر داری نظام کے خلاف قرآن کی قرار دیا۔زمین کو ریاست اسلامی ملکیت قرار دیا۔فرماتے ہیں؎
اس جت آب لالہ گوں کی خون دہتعاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
لنین خدا کے حضور میں ،فقر و ملوکیت ،تصوف،جہاد، اجتہاد،ملائے حرم،فلاحی ریاست کا نقشہ و زائچہ پیش کرتی ہیں۔علامہ اقبال کا درج ذیل شعر ہی زندگی کی نوید ہے؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں یہی پننے کی باتیں ہیں
پاکستان کو اسلامی ،جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔فرقہ واریت، جاگیرداری، موروثی سیاست،رجعت پرستی، ملائیت، سرمایہ داری، نوکر شاہی،آمریت،دہشت گردی اور کساد بازاری کا مکمل خاتمہ ،عدل و انصاف، امن و امان ،برداشت، محبت و مروت ،انسان دوستی اور عقل و دانش کا قیام،خاندانی منصوبہ بندی ،یکساں نظام تعلیم تعلیم اور صحت حکومت کی ذمہ داری ،رہائش کے لئے ریاستی زمین کی مفت الائمنٹ ،لسانی کے قبیلائی ،نسلی اور فقہی تنازعات کا خاتمہ ،عوامی شعور اور کردار اجاگر کرنا۔