ہم نے سنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تنقید کا برا نہیں مناتے اور یہ بھی سنا ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں ’’نوازیے اور عطایے‘‘ بنانے کی بھی خلاف ہیں۔اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ کل سینئر کالم نگاروں سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا اور یہ بات ہمیں انوار حقی کے ذریعے معلوم ہوئی ۔انوار حقی کا تعلق وزیراعظم عمران خان سے بہت پرانا اور اس وقت کا ہے جب وہ نمل یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رہے تھے۔یہ سچ ہے کہ پرانے مخلص دوستوں کی قدر کرنی چاہیے اور ہمں اس بات پر اعتراض بھی نہیں ہے بات دراصل یہ ہے کہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان سے سینئر جرنلسٹ ملاقات کررہے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ وزیراعظم نے اس سلسلے میں مشاورت کی ہوگی اور پھر ’’مشاورت‘‘ کرنے والے کے منتخب کالم نگار اس ملاقات میں گئے ہونگے اور اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ ’’منتخب‘‘کرنے والے کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری خامی یہ سامنے آتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان براہ راست باخبر نہیں ہیں کہ یہ انتخاب وہ خود کرتے اور میرٹ پر کرتے وزیراعظم عمران نے جو دعویٰ کیا تھا کہ وہ براہ راست معلومات لیا کریں گے اور رابطوں میں رہیں گے وہ کیا ہوا؟ظاہر ہے کہ اس انداز میں سفارش اور اقرباء پروری کو روکا جاسکتا ہے ورنہ نواز شریف کیا برے تھے؟دراصل نواز شریف سے گلہ یہی تھا کہ انہوں نے ملک کے ادارے تباہ کردیے جبکہ اقربا پروری کی پرورش کرتے رہے اور اس طرح آج نواز شریف بھی خسارے میں ہیں اور نفع ان لوگوں کو بھی حاصل نہیں ہوا جو تعلق داری،سفارش یا اقرباء پروری کے ذریعے آئے تھے میں یہاں عطاء الحق قاسمی کی مثال دے سکتی ہوں جو بحیثیت مزاح نگار عزت و توقیر کما رہے تھے مگر نواز شریف کی نواز شات کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا انوار حقی ہمارے دوست ہیں مگر ان سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ وفاق میں ہونے والی اس ملاقات میں انجینئر افتخار کو کیسے بھول گئے؟اور پھر کیا خواتیں کالم نگاروں کو محض مرد اجارہ دار معاشرے کی وجہ سے اہمیت نہیں دی جائے گی؟انوار حقی تو اسلام آباد کے دوستوں کی پی ٹی آئی کے لئے کی گئی جدوجہد کو جانتے ہیں اور سلام پیش کیا کرتے ہیں۔پچھلے دنوں ہی اسلام آباد میں ایک اہم فورم پر انجینئر افتخار کے ساتھ میں موجود تھی جہاں پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر ہم نے بات کی جبکہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جنہیں قائل کرنا آسان نہیں تھا مگر خوشامدیوں کو اہمیت دی گئی تو وزیراعظم عمران خان کو یہ شعر سنانا پڑے گا ؎
سورج مکھی کے پھول ہو تم بھی مرے حبیب
ہے چڑھتے آفتاب کی پوجا تجھے پسند
صدر ایوب دور کا واقعہ ہے کہ صدر صاحب نے ایک اخباری تراشہ محکمہ اطلاعات کو بھیجا اور ساتھ یہ نوٹ لکھا ’’آپ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت عوام میں بہت مقبول ہے لیکن اس اخباری تراشے میں جو نعرے درج ہیں ان کی وضاحت کریں؟‘‘ محکمہ اطلاعات نے جواب دیا ’’آپ کے بی ڈی ممبر اور آپ عوام میں بہت مقبول ہیں جبکہ چمچے کڑچھے غیر سیاسی نعرہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کٹلری مارکیٹ میں بحران ہے‘‘۔ اطلاعات کے منسٹر فواد چودھری پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری میں وہ بھی مخلص دوستوں کی ٹیم بنانے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں اور واحد سپوکس مین کے طورپر موجود رہتے ہیں جس کے باعث سٹریس کا شکار ہو کر کئی طرح کی تنقید کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم نے مخلصانہ طورپر ان سے رابطہ کر کے انہیں تجاویز دینے کی کوشش کی مگر ان کے پاس وقت نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی کی حکومت اگر اس طرح سے آگے بڑھی تو بہت ساری مزید مشکلات سامنے آ سکتی ہیں اور اگر وزیراعظم نے چمچے کڑچھے آس پاس رکھے تو وہ ان پر ہونے والی تنقید کو گول کر کے کٹلری مارکیٹ میں بحران والا نقشہ بیان کر دیں گے اور حقیقت نہیں بتائیں گے اور پھر عمران خان فیصلے کرتے وقت اس بات کی چھان بین بھی ضرور کر لیا کریں کہ اس شخص کا پس منظر کیا ہے اور وہ کن گلیوں اور علاقوں میں رہا ہے تاکہ انہیں اپنے فیصلوں میں پچھتاوا بھی نہ ہو اور یوٹرن بھی نہ لیناپڑے کیونکہ ابھی پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے جبکہ وزیر اطلاعات کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وزیراعظم کے لئے یہ مشکل صورتحال بھی ہے کہ فیصلہ کر کے اس پر قائم رہنا پڑتا ہے اور جلدی جلدی تعینات شخصیات کو ان کے منصب سے ہٹانے میں بھی کئی مشکلات موجود ہوتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں دو روزہ سیرت کانفرنس کا اعلان کیا اور اس میں ایک اہم موضوع کا بھی انتخاب کیا ہے۔ میرپور سے نرجس افتخار نے سیرت رسولؐ پر بہت اچھا کام کیا ہوا ہے مگر اس سکالر لیڈی کو وزیراعظم یا وزیر اطلاعات تک کیسے متعارف کروایا جائے۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں سینئر کالم نگار خواتین یا سکالرز خواتین کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے؟ یا پھر ان کو وزیراعظم کے قریب ہونے والوں کی قربت اختیار کرنا پڑے گی حالانکہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین نے بھرپور انداز میں شرکت کر کے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے پہلے الیکشن میں ہار جانے کے بعد میں نے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت وہ ایم این اے ہاسٹل کی بیسمنٹ میں پی ٹی آئی کے بے شمار پمفلٹ اور دیگر سامان کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھے تھے اس وقت میرا سکول ’’دی گارڈین‘‘ ان کی نمائندہ خاتون کے الیکشن کا آفس بھی بنا رہا تھا۔ میں نے اپنے کالموں پر مبنی کتاب میں عمران خان کے بحیثیت لیڈر کامیاب ہونے پر اس زمانے میں بات کی تھی۔ ہم اس زمانے سے کالم لکھ رہے ہیں اور اب بھی ہم پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے اور کالموں میں ان کی تعریف اور تنقید کرتے رہیں گے۔ مجھے ایک اور واقعہ کا خیال آ گیا کہ صدر ایوب کے زمانے کی بات ہے کہ کسی سرکاری تقریب میں پروٹوکول کے مطابق جنرل موسیٰ خان اور شگوفہ باز ہیرو جسٹس کیانی صدر ایوب سے دور لیکن اکٹھے بیٹھے تھے۔ جسٹس کیانی نے موسیٰ کو مخاطب کر کے کہا… اے موسیٰ! کیا یہ وادی طور نہیں؟ ہم کیوں خدا سے دور بیٹھے ہیں؟ کل کالم نگاروں کی وزیراعظم سے کرائی گئی ملاقات میں یہ پوچھا جا سکتا ہے کیا یہ وادی طور نہیں؟ اور خدانخواستہ مخلص لوگ کیوں دور ہیں؟ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں ایک اخباری کارٹون کچھ اس طرح تھا کہ ایک مستطیل میز پر سربراہ حکومت بیٹھے ہیں اور ان کے دائیں بائیں مختلف سائز کے چمچے رکھے ہیںاور جو وزیراعظم کے قریب چمچہ ہے اس کا سائز اتنا ہی بڑا ہے۔ وزیراعظم کے قریب رہنے والے چند مخصوص لوگ باقی لوگوں کو احساس محرومی میں مبتلا نہ کریں کہ جس کا نقصان خود وزیراعظم کو اور پھر ان لوگوں کو بھی ہو جو اقرباء پروری یا
سفارش کی بنیاد پر آگے جائیں گے۔ اسلام آباد کے کالم نگاروں کو نظر انداز کر کے اگر وزیراعظم ہاؤس میں منتخب کالم نگاروں کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو یہ بات قابل تعریف نہیں۔ پی ٹی آئی کو اگلے پانچ سال حکومت کرنی ہے تو ان باتوں کا خیال رکھنا ہو گا ورنہ ایک بار پھر ’’نوازیے‘‘ اور ’’عطائیے‘‘ سامنے آئیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو یاد ہو گا کہ اپوزیشن لیڈر بلاول نے انہیں ’’منتخب‘‘ وزیراعظم کہہ کر مخاطب کیا تھا اب اگر کالم نگار بھی منتخب ہوتے ہیں تو اس انداز کو کوئی اچھا انداز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وزیر اعظم سے کالم نگاروں کی ملاقات کا اہتمام؟
Nov 17, 2018