سال 2018 کے انتخابات کے دوران سیاسی وابستگیوں سے بالاتر اس بات پر سب کااتفاق تھا کہ صحت کے نظام میں حقیقی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نظام میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ایسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے عام آدمی کو معیاری سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے اور صحت کی بنیادی سہولیات سب کو میسر ہوں ۔ ایسا تبھی ممکن ہے کہ ایسی اصلاحات لائی جائیں جس سے نظام اپنی استعداد کے مطابق سروس ڈیلیوری دے پا ئے۔
سو وہ تاریخی موقع بھی آپہنچا۔ ایک سال سے زائد کے عرصہ میں بہت سے اقدامات کئے گئے ۔ ان صفحات پر دیگر اقدامات کے بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم آج کا موضوع مجوزہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ایکٹ ہے جس پر ماضی قریب میں بہت کچھ کہا گیاہے۔
ٹیچنگ ہسپتال صحت عامہ کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ افرادی قوت، سٹاف کی ٹریننگ اور ریسرچ کے حوالے سے ان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ان ہسپتالوں کے مسائل پیچیدہ ہیں اور اور ان کو حل کرنے کے لئے انتظامی حوالوں سے بہت اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔محکمہ صحت پر خطیر 230 ارب روپے سے زائد خرچ کرنے کے باوجود مسائل کا جوں کا توںہونا، اندرونی اختلافات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ، ادارہ جاتی گروہ بندی، محکمہ میں احتساب کے نظام کا نہ ہونااور دیگر مسائل کا ایک ایسا پہاڑ تھا جس سے مجموعی کارکردگی پر برا اثر پڑ رہا تھا۔ صرف ایک بستر کا سالانہ خرچہ چالیس سے پچاس لاکھ تک جا پہنچا تھا۔اور اس کے باوجود سروس ڈیلیوری اور کارکردگی پربہت سے سوال موجود تھے۔ کوئی تیرہ لاکھ کے قریب افرادی قوت کی خدمات کو محض اس لیے درست استعمال نہیں کیا جارہاکیونکہ تمام اختیارات کا ارتکاز سیکریٹیریٹ کے پاس تھا۔ کوئی چھبیس ہزار کے قریب شکایتوں اور انکوائیریز کا سلسلہ حل کرنے کے لئے عملہ شب وروز مصروف تھا جبکہ دیگر بہت سے اہم کام پڑے ہوئے تھے۔ وسائل کا یہ ضیاع کو ئی بھی قوم برداشت نہیں کر سکتی۔ اور سب سے بڑھ کہ عام آدمی اور مریض سب سے زیادہ متاثر ہو رہاتھا۔
سو غوروفکر کے بعد طے ہوا کہ پائدار انتظامی اصلاحات متعارف کروائی جائیں اور صحت کے نظام میں بہتری لائی جائے۔ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ایکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں انتظامی اور مالی حوالوں سے ایسی تبدیلیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں جو دور جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے متعارف کروانے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے درجنوں میٹنگز کی گئیں اور سب سے تجاویز لے کر ان کی مشاورت سے مسودہ میں بار بار ضروری تبدیلیاں کی گئیں۔ تاہم ہمیں حیرت ہوئی کہ ہمارے ساتھ بیٹھنے والے اچانک کوئی دلیل دیئے بغیر احتجاج کرتے نظر آئے جبکہ ہم بات چیت کے زریعے قانون کو سب کے لیے قابل عمل بنانے کے سعی کر رہے تھے۔۔ اور پھر کچھ لوگوں نے ایم ٹی ایکٹ کو پڑھے اور جانے بغیر رد کیا جو غیر متوقع تھا۔ ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز سے بار بار بات کی ہے۔ سب سے ان کی ضروریات اور پیشہ ورانہ رکاوٹوں کے بارے میں تفصیلی سیشنزکئے ہیں۔
ڈاکٹرز کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ کوان کی تعلیم اور قابلیت کے تناسب سے بڑھایا جائے ۔اب تمام ڈاکٹرز کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا رہا ہے اور پھر تنخواہ کو بہتر کارکردگی کے بعد بڑھایا بھی جا سکے گا۔ ڈاکٹر زکو آزادی ہے کہ وہ ایم ٹی آئی کے تحت زیادہ تنخواہ پر کام کریں یا مروجہ بی پی ایس کے تحت ملازمت جاری رکھیں۔ ڈاکٹرز دونوں اقسام کے سروس سٹرکچر میں کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔اور اپنے لیے اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس سے بہتر آفر اور کیا دی جا سکتی ہے۔
اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ مالی اور انتظامی خود مختاری کے بغیر کار کردگی میں بہتری نہیں آ سکتی۔اور مجوزہ قانون اصل میں ان اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کی طرف ہی ایک قدم ہے۔ اختیارات کے ارتکاز سے پیدا ہونے والے مسائل کا حال ایم ٹی ایکٹ کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے سے کارکردگی میں بہتری کے علاوہ احتساب کا موثر نظام قائم ہو پائے گا۔ اختیارات کو ادارے کے متعلقہ افسران کے سپرد کرکے اور موثر مقامی خود مختاری سے مریض کا بہتر علاج ممکن بنایا جا سکے گا۔
اس تمام عمل میں بار بار ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا اور مریض کے لیے پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ہماری بار بار کی اپیلوں اور ملاقاتوں کی کوششوں کے باوجود کچھ ساتھیوں کی طرف سے ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ ایک مشکل صورتحال تھی جس میں مریضوں کی فلاح کے لیے ہم نے ہر ممکن کوشش جاری رکھی۔
نجکاری کا لفظ گیر ایم ٹی آئی کے ساتھ غیرمناسب طور وابستہ کیا گیا۔ یہ بات بار بار واضح کی گئی کہ ہسپتالوں کو فنڈز خود حکومت فراہم کرے گی، عملے کو ملازمت حکومت ہی دے گی۔ مفت ادویات حکومت ہی فراہم کرے گی۔ مانیٹرنگ حکومت خود کرے گی، ترقیاں خود دے گی، آڈٹ خود کرے گی، کارکردگی خود جانچے گی ۔ اسے پرائیوٹائز یشن کہنا نا مناسب اور غلط ہے۔۔ تمام دنیا میں اور حتیٰ کہ درجنوں حکومتی ادارے بورڈ آف گورنرز کے تحت کام کرتے ہیں۔ لیکن وہاں کبھی بھی اسے پرائیوٹائز یشن نہیں کہا گہا۔ لیکن یہاں احتجاج کے لیے اس نام کو بھی استعمال کیا گیا۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ماضی میں اسی طرز پر ہونے والی اصلاحات اور ان کے نتائج کا مکمل مطالعہ کیا گیا ہے اور مناسب تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پچھلی اصلاحات اور قوانین کی کامیابی اور ناکامی کے تمام عوامل کا سائینسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے۔ بورڈ آف گورنرز کے علاوہ ون لائن بجٹ کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے ۔ادویات کی بروقت خریداری، مشینری کی بر وقت مرمت اور خریداری، اور دیگر معاملات میں رکاوٹوں کو دور کر کے عام آدمی کو مکمل ریلیف ملے گا۔ ہسپتالوں میں بر وقت فنڈز کی فراہمی سے ادویات اور مشینری ہمہ وقت میسر ہونگی۔ مالی آزادی دینے کے بعد حکومت کارکردگی کے اعشاریوں کے نظام پر ان اداروں کی کارکردگی جانچے گی۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ذریعے کارکردگی اور مال معاملات کا موثر نظام قائم کیا جائے گا ۔
ایم ٹی ایکٹ ابتدائی طور پرمنتخب ٹیچنگ ہسپتالوں میں متعارف کروایا جا رہا ہے اور کچھ صہ کے بعد ان اداروں میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ چونکہ ٹیچنگ ہسپتالوں میڈیکل کی تعلیم اور ریسرچ جیسے اہم کام بھی سر انجام دئے جاتے ہیں اس لیے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہاں علمی اور پیشہ ورانہ استعداد کے حوالے سے ایم ٹی آئی سے پہلے اور بعد میں کیا فرق دیکھنے کو ملا۔
ایم ٹی ایکٹ کے تحت عملہ کو مارکیٹ بیسڈ تنخواہوں کے علاوہ کارکردگی سے جڑی ترقی اور تنخواہوں کا ایک نظام شامل ہے۔۔ اچھی کارکردگی والوں کے لیے بونس اور ترقی جبکہ کام نہ کرنے والوں کے لیے احتساب کا نظام بھی ساتھ ہی دیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کا بخوبی دراک ہے مجوزہ ایم ٹی ایکٹ کے خلاف مزاحمت ایک خاص طبقہ کی طرف سے آرہی ہے جوسرکاری ہسپتالوں میں پر کشش پوزیشنز پر ملازمت کے باوجود پرائیویٹ ہسپتالوں کو چلا رہا ہے ۔ مگر ہمارے سامنے صرف مریض کی فلاح اور وسائل کا درست استعمال ہے۔
آخر میں اس بات کا تزکرہ کرنا چاہوں گی کہ تمام عمر میں نے میڈیکل کمیونٹی کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس تمام جدوجہد کے بعد اب اگر تاریخ ہمیں بہتری کے لیے ایک تاریخی موقعہ دے رہی ہے تو اسے گنوانا مناسب نہیں ہو گا۔ ایم ٹی آئی حقیقی تبدیلی کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے ۔ چند سالوں میں تاریخ اپنا فیصلہ دے رہی ہو گی۔ کامیابی اور ناکامی بہرحال تاریخ ہم سب کے حصے میں ہی ڈالے گی۔