تحریک پاکستان ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں برصغیر کے ہر گلی کوچے میں بسنے والے مسلمانوں نے حصہ لیا ، اس تحریک کے دوران مسلمانوں کا جوش وجذبہ قابل دید تھا ۔قیام پاکستان کی جدوجہد میں جن شخصیات نے قائداعظمؒ کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنا تن من دھن پاکستان کیلئے قربان کر دیا ، ان میں ایک نمایاں نام محمود علی کا ہے۔ اُنہوں نے نوجوانی کے عالم میں خارزارِ سیاست میں قدم رکھا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بے لوث سپاہی کی حیثیت سے اپنی زندگی پاکستان کیلئے وقف کردی۔ وہ بنگال کے ایک انتہائی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے افراد اعلیٰ سول اور عسکری عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ آپکے والد مولوی مجاہد علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون میں گریجوایشن کی تھی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے جن کے بنگالی زبان میں متعدد مجموعہ ہائے کلام موجود ہیں۔ گزشتہ برس محمو دعلی کا صد سالہ یوم ولادت منایا گیا ، کرونا وباء کے باعث صد سالہ یوم ولادت کی متعدد تقریبات کا انعقاد نہ کیا جا سکا تاہم انکی کتابیں چھاپنے کا مرحلہ وار آغاز ہوا ہے۔ علم و ادب سے محبت آپ کو ورثے میں ملی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں ہفتہ وار اخبار ’’نوبلال‘‘ کا اجراء کیا جو 1958ء کے وسط تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ اُنہوں نے کچھ عرصہ کیلئے بذات خود اس اخبار کی ادارت کے فرائض ادا کئے تاہم ان کی گوناں گوں مصروفیات کے باعث انکی اہلیہ بیگم ہاجرہ محمود کو ادارت کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی جو اُنہوں نے بطریقِ احسن نبھائی۔ 1969ء میں محمود علی کی زیرادارت اس اخبار کی از سر نو اشاعت کا آغاز ہوا مگر 1970ء میں یہ اخبار بند ہوگیا۔
1951ء میں ڈھاکہ میں ’’پاکستان یوتھ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت محمود علی نے کی۔ تاریخی اہمیت کی حامل اس کانفرنس میں ’’ایسٹ پاکستان یوتھ لیگ‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم معرضِ وجود میں آئی جس کا صدر محمود علی کو منتخب کیا گیا۔ 1952ء میں مسلم لیگ برسراقتدار آگئی تھی۔ اُن دنوں مشرقی پاکستان میں زبان کا مسئلہ خاصی اہمیت اختیار کرچکا تھا۔ حکومت نے اپنے مخصوص انداز میں اس لسانی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں متعدد طالبعلم جان کی بازی ہار گئے۔ محمود علی نے بے گناہ طلبہ کی ہلاکت پر احتجاجاً مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے دیگر محب وطن ساتھیوں سے مشاورت کے بعد عوام سے ایک مشترکہ اپیل کی کہ وہ جمہوری‘ سماجی اور اقتصادی بنیادوں پر ایک نئی سیاسی جماعت بنائیں۔ چنانچہ پاکستان گناتنتری دَل (پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی) وجود میں آگئی۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک منفرد سیاسی جماعت تھی۔ محمود علی کو اس نئی سیاسی جماعت کا سیکرٹری منتخب کرلیا گیا۔ محمود علی بڑے دوراندیش تھے اور ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ کسی بڑی طاقت کا حلیف بننے کی بجائے پاکستان غیر جانبداری کی پالیسی اپنائے اور تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط استوار کرے۔ بعدازاں پیش آنے والے حالات نے ثابت کیا کہ غیر جانب داری ہی پاکستان کیلئے فائدہ مند ہے۔ ان کی اِس خواہش کو عملی صورت تب ملی جب 1979ء میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں منعقدہ غیر جانب دار ممالک کی تنظیم (Non-Aligned Movement) کے اجلاس میں پاکستان اس کا باقاعدہ رکن بن گیا۔
16دسمبر 1971ء کو نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی تاریخ کا ایک دلدوز سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کردیا۔ اس علیحدگی کو محمود علی نے کبھی قبول نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام متحدہ پاکستان کے حامی تھے اور کسی نے ان سے کبھی یہ نہ پوچھا تھا کہ آیا وہ مغربی پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہیں؟وہ آخری دم تک پاکستان کے دونوں بازوئوں کے از سر نو اتحاد کیلئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کیلئے اُنہوں نے 1985ء میں ’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اُنہوں نے کبھی بنگلہ دیش جانا گوارا نہ کیا حالانکہ وہاں ان کی آبائی زمینیں‘چائے کے باغات اور دیگر جائیدادیں موجود تھیں۔ انکے اس ایثار اور قربانی کا اعتراف حکومت پاکستان نے یوں کیا کہ انہیں تا حیات وفاقی وزیر کا درجہ عطا کردیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد یہاں نئی حکومت برسراقتدار آئی تو محمود علی کو صدر مملکت کا مشیر برائے سیاسی امور مقرر کردیا گیا۔ بعدازاں وہ قومی امور‘ بیرون ملک مقیم پاکستانی تارکین وطن کے امور اور جیل خانہ جات کے وزیر مملکت بنا دیے گئے۔ دسمبر 1974ء میں انہیں قومی کونسل برائے سماجی بہبود کا چیئرمین تعینات کردیا گیا۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے جب 5جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو کچھ عرصہ بعد محمود علی کو صدر مملکت کا مشیر برائے شہری امور‘ ہائوسنگ اینڈ ورکس مقرر کردیا گیا۔ جولائی 1978ء میں نئی کابینہ تشکیل دی گئی تو انہیں صحت‘ سماجی بہبود اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکموں پر مشتمل وزارت مل گئی۔ پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوئوں کا از سر نو اتحاد ان کا خواب تھا جس کی تعبیر کے حصول کیلئے اُنہوں نے خود کو وقف کررکھا تھا۔ تحریک تکمیل پاکستان کے بانی اور سربراہ کے طور پر اُنہوں نے پاکستان کے قریہ قریہ جاکر لوگوں کو متحدہ پاکستان کیلئے جدوجہد کی ترغیب دی۔ عہد حاضر میں مادر وطن کی نظریاتی و جغرافیائی تکمیل ان کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ متحدہ پاکستان کے سب سے قدآور عَلم بردار تھے۔ نظریۂ پاکستان یا دو قومی نظریہ انکے رگ و پے میں خون کی مانند گردش کرتا تھا۔ اُن کا فکر و عمل وطن عزیز کے موجودہ سیاسی رہنمائوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔
٭٭٭