گلگت بلتستان انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی ‘ اپوزیشن کی جانب سے دھاندلیوں کے روایتی الزامات
گلگت بلتستان کے الیکشن میں غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج کیمطابق وفاق کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ جبکہ گلگت بلتستان میں 5 سال تک حکمرانی کرنیوالی مسلم لیگ (ن) دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ 23 نشستوں کے مکمل نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے 9 امیدوار فاتح قرار پائے ہیں۔ 7 نشستوں کیساتھ آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔ پیپلزپارٹی نے چار اور پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ایم ڈبلیو ایم ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ جے یو آئی (ف) کوئی بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان اور انکے پیشرو پیپلزپارٹی کے مہدی شاہ بھی اپنے اپنے حلقے سے ہار گئے۔ سپیکر قانون ساز اسمبلی فدامحمد کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
گلگت بلتستان میں انتخابات سول انتظامیہ کی نگرانی میں ہوئے۔ پاکستان کی بڑی پارٹیوں نے پاک فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کی مخالفت کی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں کم و بیش تمام پارٹیوں نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کیلئے گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آیا تو اس میں پاک فوج کیخلاف اس اتحاد کی بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بیانیہ سامنے آیا جس کی کچھ پارٹیوں نے حمایت کی اور کچھ متذبذب رہیں۔ پیپلزپارٹی 20 ستمبر کے اس بیانیے سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کافی پیچھے چلی گئی تاہم جی بی کے انتخابات میں پاک فوج کو طلب نہ کرنے پر متفق تھے۔
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلائی‘ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء بھی جلسے کرتے رہے جس کی اپوزیشن کے قائدین نے مخالفت بھی کی۔ انتخابات کے نتائج عمومی سرویز کے عکاس ہیں۔ آزاد کشمیر اور جی بی میں ووٹر کا عمومی رجحان مرکز میں حکومت کرنیوالی پارٹی کی جانب ہوتا ہے۔ مرکز میں ایک‘ اور کسی صوبے میں دوسری پارٹی کی حکومتوں کے مابین جس کو آرڈی نیشن کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ بلیم گیم کی نذر ہو جاتا ہے۔ آج سندھ اور مرکز کی حکومتیں اسکی افسوسناک مثال ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات پرامن ہوئے۔ اس روز بلاول بھٹو کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن میں جوش و خروش جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا عہد ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ مشکل موسمی حالات میں ووٹنگ میں حصہ لینے پر عوام کو سلام‘ خواتین کی شرکت خوش آئند ہے۔ پی پی اور نواز لیگ کے دیگر رہنماء انتخابی عمل شفاف بنانے کیلئے الیکشن کمیشن پر زور دیتے رہے۔ ماضی کے تناظر میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئیگی۔ وحدت المسلمین اسکی اتحادی ہے۔ اسکی ایک نشست شامل کرکے تحریک انصاف کی دس نشستیں ہو جائیں گی جبکہ خواتین‘ اقلیتوں اور لیبرز کی 9 نشستوں کے انتخاب کے بعد پی ٹی آئی کا گلگت بلتستان اسمبلی میں سنگل مجارٹی بننے کا بھی واضح امکان ہے۔ آزاد امیدواروں کا عمومی رجحان حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونیوالی پارٹی کی طرف ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کیلئے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر بھی حکومت بنانا مشکل نظر آرہا ہے جبکہ آزاد امیدواروں کے انکے پلڑے میں جانے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔
انتخابات کے دوران تلخیاں بھی ہوتی ہیں‘ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ اب انتخابی عمل مکمل ہو چکا اس لئے تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ خوش دلی سے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے۔ تحریک انصاف مرکز اور دو صوبوں میں اقتدار میں ہے۔ اس سے بڑے پن کی زیادہ امید ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے اسے زیادہ کردار ادا کرنا ہے۔ جی بی میں کامیابی کے بعد وفاقی وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ پٹ گیا۔ ایسی طنز و تشنع کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی حکومت سازی کے کئی مراحل باقی ہیں۔ تحریک انصاف کو کامیابی پر سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔ پاکستان میں انتخابات کے بعد ہارنے والے دھاندلی دھاندلی کا واویلا کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اسی کلچر کے تابع جی بی کا انتخابی نتائج تسلیم کرنے اے انکار کیا ہے جبکہ مثبت روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں جو پی ڈی ایم کا حصہ اور بڑی پارٹیاں ہیں‘ غورو خوض کریں کہ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے مل کر الیکشن لڑا ہوتا تو صورتحال انکے نکتہ نظر سے بہتر ہوتی۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہو سکتی تھی۔ ایک دوسرے پر ریشہ خطمی ہونے والوں نے الگ الگ انتخابات لڑا تو یہی ہونا تھا۔بلاول بھٹو زرداری اور احسن اقبال نے گزشتہ روز اپنی الگ الگ پریس کانفرنسوں میں حکمران پی ٹی آئی پر سنگین دھاندلیوں اور عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن موجود ہے۔ عذرداریاں دائر کرائیں۔
فوج کی نگرانی میں انتخابات کی مخالفت کی گئی۔ اب سول انتظامیہ پر بھی سوالات اٹھیں گے تو پھر کون انتخابات کرائے؟ آئندہ انتخابات میں جدید سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے۔ شاید الیکٹرانک ووٹنگ پر پارٹیاں اعتماد کر سکیں مگر امریکہ میں اسی سسٹم کے باوجود ٹرمپ نتائج ماننے سے انکاری ہیں۔ جی بی میں ہونیوالے انتخابات کے عوامی فیصلہ کو تسلیم اور اس کا احترام کرنا چاہیے اور دھاندلی جیسی روایت کو اب ختم کر دینا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کے خیالات اور نظریات میں بعدالمشرقین ہو سکتا ہے مگر وہ اسی دھرتی کی اولاد ہیں‘ جمہوریت کو سب مقدم گردانتے ہیں۔ جمہوریت کی بقاء اور مضبوطی کیلئے انتخابی اصلاحات کی طرف توجہ دیں تاکہ تنازعات سے بچا جاسکے۔ اسکے ساتھ ساتھ مخالفین کیلئے ناقابل برداشت رویوں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔
عوامی فیصلہ کا احترام بہرصورت ضروری ہے‘ بلیم گیم ترک کرکے آگے چلیں
Nov 17, 2020