اسلام آباد(قاضی بلال؍خصوصی نمائندہ)آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق وزارت خزانہ نے ٹیکس کے حصص پر مالی سال 2019 کے دوران صوبوں کو 7 ارب 30 کروڑ روپے تک کی رقم کی ادائیگی کم کی اور کلیکشن چارجز میں کٹوتی کی۔ حکومت کے پہلے سال کے دوران تیل اور گیس کے شعبے میں 15 کھرب 35 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں اور ریونیو نقصانات کی نشاندہی کر دی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے وزارت خزانہ پر آڈٹ کے لیے ریکارڈ کی عدم فراہمی، خطیر قرض اور اپنے عملے کو غیر مجاز بونس کی تقسیم کا الزام لگادیا۔ آڈٹ سال 2019-20 کیلئے اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے متعدد درخواستوں کے باوجود مالی سال 2019 کے کم از کم 13 اہم اکانٹس سے متعلق آڈٹ کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔آڈٹ کے لیے پیش نہ ہونے والے ریکارڈ میں اخراجات کے حتمی اسٹیٹمنٹس، وزارت خزانہ کی جانب سے کی گئی ہر قسم کی سرمایہ کاری، منصوبوں کی تکمیل اور پیشرفت رپورٹس، عارضی طور پر تعینات کیا گیا عملہ اور کنسلٹنٹس، بقایا ریکوریز، قومی و بین الاقوامی بانڈز اور درآمدکنندگان و برآمدکنندگان کو ادا کیے گئے قرضوں اور سود اور ریفنڈز کی تفصیلات شامل ہیں۔ مارچ 2019 کے آخر تک کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا عوامی قرضہ جی ڈی پی کا 74.2 فیصد تھا جو مالی ذمہ داریوں اور قرض کی حد بندی کے قانون کے تحت 60 فیصد سے کہیں زیادہ تھا۔آڈٹ رپورٹ مطابق وزارت خزانہ نے ٹیکس کے حصص پر مالی سال 2019 کے دوران صوبوں کو 7 ارب 30 کروڑ روپے تک کی رقم کی ادائیگی کم کی اور کلیکشن چارجز میں کٹوتی کی۔اس میں کہا گیا کہ وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک فیصد وصولی کے چارجز کی کٹوتی کے بعد نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)کے مطابق صوبوں کے اکانٹس میں ان کے ٹیکس محصولات جمع کرے۔تاہم آڈٹ پتا چلا کہ12 ارب 75 کروڑ روپے وصولی کے چارجز کی مد میں مزید کٹوتی کی گئی جس سے صوبوں کو 7 ارب 25 کروڑ روپے سے محروم کردیا گیا۔ وزارت نے مالی سال 2019 کے دوران اپنے ملازمین کو 26 کروڑ40 لاکھ روپے کے مراعات کی غیر مجازی ادائیگی کی تھی۔آڈیٹر جنرل نے اس خلاف ضابطہ اور غیر مجازی ادائیگیوں اور آڈت کا ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اسی طرح اے جی پی نے پیٹرولیم ڈویژن میں مالی انتظامات کی سنگین کمزوریوں کا بھی انکشاف کیا اور بتایا کہ 'ریونیو وصولیوں کے جائزہ لینے اور جمع کرنے، گیس ڈیولپمنٹ سرچارج والے علاقوں کی ریکوری، گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس، پیٹرولیم لیوی اور رائلٹی کی نگرانی کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے'۔اس میں کہا گیا ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے پاس اپنا آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کی مناسب جانچ اور توازن برقرار رکھ سکے تاہم وہ اپنا مرکزی کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور اس نے صرف پری آڈٹ کا کردار نبھایا۔