کیا ہماری قیادت عربوں سے خائف ہے؟

Nov 17, 2020

مطلوب وڑائچ

امریکہ کے ایما پر کچھ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ اسرائیل ٹرمپ کے لیے بلو آئی چائلڈ تھا۔ تو اسرائیل کے بارے میں کسی بھی امریکی صدر کی پالیسی منفی نہیں ہو سکتی مگر فرق ضرور ہوتا ہے۔ جوبائیڈن اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو خراب نہیں کریں گے مگر ٹرمپ کی طرح کسی بھی ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زور نہیں ڈالیں گے۔ عرب ممالک کے لیے مزید مشکلات اس وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب ترکی پر وہ پابندیاں ختم ہو جائیں گی جو خلافت کے خاتمے کے بعد لگائی گئی تھیں۔ بھارت اور کئی ممالک امریکہ کی خوشامد اور چاپلوسی میں جُتے ہوئے ہیں ان کی مثال ایسی ہی جیسے میر عالم اپنے چودھری کے گن گاتا ہے۔ اس کی کامیابی کے نعرے لگاتا اور ڈھول پیٹتا ہے۔جیت کی صورت میں میر عالم کو حصہ نہیں ملتا بخشیش ملتی ہے۔ نوازشریف لندن میں خاموش بیٹھے تھے اچانک دُم پر کھڑے ہو کر فوج کو للکارنے لگے۔ جوبائیڈن 16جنوری کو صدر کا حلف اٹھائیں گے اسی روز نوازشریف صاحب کے سر سے عربوں کی چھتری اُٹھ جائے گی اور میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے جنوری میں میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کی بات پورا حساب کتاب لگا کر کی تھی۔ دو سال قبل بھی سعودی عرب کو اس وقت مشکلات کا سامنا تھا جب سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خشوگی کو ترکی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس کا امریکہ اور اس کے میرعالموں فرانس اور برطانیہ نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان ٹرمپ کے زوردار طریقے سے منع کرنے کے باوجود سعودی عرب چلے گئے تھے جس پر سعودی عرب پاکستان کا بڑا ممنون ہوا تھا۔ تین ارب ڈالر اور پھر تین سال تک پٹرول کی فراہمی اسی ممنونیت کا نتیجہ تھی۔ سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی مشکلات میں پاکستان ہی اس کے ساتھ کھڑا ہو کر مشکلات کو کم کر سکتا ہے۔ خطے میں ایران، شام اور یمن کے ساتھ ساتھ لبنان اور عراق کی حزب اللہ بھی سعودی عرب کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان اور سعودی کی قربت یقینی نظر آتی ہے جو پاکستان سے زیادہ سعودی عرب کے مفاد میں ہے تاہم پاکستان کو بھی یقینا فائدہ تو ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب کو قریب لانے میں تیس سے زائد اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے کمانڈر جنرل راحیل شریف بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔ قارئین! ولی عہد محمد بن سلمان اپنے آپ کو اس پلڑے میں رکھا جس میں وزن زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس سائز اور حجم کے بیڑے ڈوبنے میں وقت لیتے ہیںجب کہ اسی پلڑے میں دنیا کی معاشی طاقت اسرائیل اور بین الاقوامی منڈی میں بھارت ایک منڈی اور مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔یقیناً آج عرب شیوخ نیوورلڈ آرڈر کے تحت اپنے آپ کو مضبوط دھڑے میں متصور کرتے تھے اور بظاہر یہی دھڑا مستقبل میں نیوورلڈ آرڈر کو کنٹرول کرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ انسانوں سے اوپر بھی ایک ذات جو نظام کو کنٹرول کر رہی ہے اور وہ یقینا ہمارا ربّ ہے اور اسی ربّ نے پاکستان کی بھی لاج رکھنی تھی اور قدرت کے اس نیوورلڈ آرڈر کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کو اتنی شرمناک شکست ہوئی ہے کہ جسے وہ ابھی ذہنی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیںاور یہ شکست صرف امریکنوں کی ہی نہیں بلکہ یہ شکست اسرائیل اور بھارت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔میں کوئی ستارہ شناس یا دست شناس نہیں ہوں لیکن بین الاقوامی امور سے میرا چار دہائیوں سے واسطہ ہے ۔ اور اسی فیلڈ کا طالب علم ہونے کے ناطے میں نے امریکن الیکشن سے پہلے اپنے کالموں میں اس بات کا تجزیہ کیا تھا کہ جوبائیڈن کی جیت اس غیرفطرتی اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔
 گذشتہ روز گلگت بلتستان کے انتخابات میں عوام نے میاں نوازشریف کے بیانیے اور زرداری کے خوابوں کو مسترد کر دیا ہے اور یہ پاک فوج پر عوام کا اظہار اعتماد ہے اور ایک مضبوط پاکستان کے بقا کے لیے ایک مضبوط فوج اور مضبوط سپہ سالار کا بھرم قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان ایک عالمی طاقت ہے اور عالم میں اسے اپنا وجود اور مفاد برقرار رکھنے کے لیے ایک مضبوط بیانیے اور فوج کی ضرورت ہے۔ اور ہم بائیس کروڑ عوا م نے یونیفارم یا یونیفارم کے بغیر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہنا ہے۔ یقینا ہماری سیاسی قیادت کو بھی عدلیہ اور فوج کو ساتھ لے کر چلنا ہوگاکیونکہ اگلے چند روز میں بین الاقوامی سیاست میں کئی زلزلے اور تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ ہمیں عربوں سے خائف ہونے یا ایران اور ترکی کی خوشامد کرنے کی بھی ضرورت نہیں مگر ہمیں پاکستان کی بقا کو ترجیح دینا ہوگی۔

مزیدخبریں