اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، انگریزی اخبار کے صحافی وغیرہ کیخلاف توہین عدالت کیس میں شوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی، خبر دینے والے اخبار کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن، ایڈیٹر ان چیف اور ایڈیٹر عدالت پیش ہوئے۔ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت سے غیر حاضر تھے اور ان کی جانب سے ان کے صاحبزادے احمد حسن رانا عدالت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اخبار کے مالک کو کہا کہ آپ سامنے روسٹرم پر آئیں، اس عدالت نے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بلایا، یہ آئینی عدالت ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھایا جارہا ہے، اخبار اور سوشل میڈیا میں فرق ہے، اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہے، سوشل میڈیا کی نہیں، بادی النظر میں بیان حلفی جعلی لگتا ہے، آپکی رپورٹ کی وجہ سے سابق چیف جج کو نوٹس کیا گیا، مجھے میرے ججز پر اعتماد ہے، اگر اعتماد نہ ہوتا تو یہ کیس نہ ہوتا، اس ہائیکورٹ میں ہر جج نے عوام کا اعتماد بحال رکھا ہے، اس ہائیکورٹ کے ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں، ہم اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ میرے خلاف کئی بار سوشل میڈیا پر کمپین چلائی گئی، آپ کو کوئی بیان حلفی دے تو آپ اسے فرنٹ پیج پر چھاپ دیں گے۔ چیف جسٹس نے اخبار کے مالک کو سٹوری ہیڈلائن پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسز غیر جانبدار ہونگے۔ انگریزی اخبار کے مالک نے کہاکہ میرے پاس عینک نہیں ہے، جس پر عدالت نے صحافی کو سٹوری ہیڈلائن پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی سے آرڈر لیا ہے۔ یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں۔ سابق جج نے بیان حلفی کو کہاں پر نوٹرائز کیا؟۔ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائز کیا؟۔ آپ انویسٹی گیشن کے ماہر صحافی ہیں کیا آپ نے خود انویسٹی گیشن کی؟۔ ایک سال سے صرف دو ڈویژن بینچز تھے جس نے پورے ہائی کورٹ کو چلایا۔ میرے ساتھ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ایک ڈی بی میں تھے، دوسرے ڈی بی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی شامل تھے۔ ایک سال ڈویژن بینچ کس نے بنائے جو بار بار ایشو اٹھتا ہے کہ ڈویژن بنایا گیا، آپ نے اس عدالت پر انگلی اٹھائی، اس عدالت کے معزز جج کے خلاف سٹوری کی، آپ لوگوں کا اس عدالت سے اعتماد تباہ کرنا چاہتے ہیں، میں چیف جسٹس ہوں اگر میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو میں سپریم جوڈیشل کونسل جاؤنگا، سابق چیف جج کے سامنے بات ہوئی اور وہ 3 سال تک خاموش رہے، اخبار نے فرنٹ پیج پر ایسی سٹوری شائع کی جس سے عوام کا اعتماد اٹھتا ہے، ہم پر تنقید کریں مگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں پر بحال ہونے دیں، 16 جولائی کو اپیل دائر ہوئی، کونسا بینچ بنا؟، جس وقت اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب موجود تھے، 31جولائی دوسری تاریخ دی گئی، کسی وکیل سے ہی پوچھ لیتے کیا ایک ہی سماعت میں انہیں ضمانت مل سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے سٹوری دینے والے صحافی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پتہ کیا؟، اس کیس میں ملک سے نامی گرامی اچھے وکلاء شامل تھے، کیا آپ نے ان وکلاء سے پوچھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے ڈیٹ مانگی، انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، کیونکہ وہ پروفیشنل لوگ ہیں اور ان کو پتہ ہے۔ ایک سال سے صرف دو ڈویژن بینچز تھے جس نے پورے ہائیکورٹ کو چلایا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ رانا شمیم کے بھائی 6 تاریخ کو فوت ہوئے اور 10 کو لندن جاکر بیان حلفی دیا گیا۔ چیف جسٹس نے سٹوری دینے والے صحافی سے کہا کہ جو بنچ بنا تھا وہ کس کے کہنے پر ٹوٹا تھا، اس کیس میں کتنی سماعتیں ہوئیں لکھ لیں،10،11، 12،13،17،18،19 ستمبر سماعتیں ہوئیں، روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوتی رہیں، سب کو چیلنج ہے اگر ثابت کر دیں بینچ کسی کے کہنے پر توڑا تھا تو میں ذمہ دار ہوں۔ صحافی نے کہا کہ سر کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس بیان حلفی میں اسلام آباد ہائیکورٹ پر الزام لگایا گیا ہے، آپ اور سابق چیف جج کو شواہد پیش کرنا ہوں گے، سابق چیف جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں تاخیر نہیں ہوگی، آپ میسنجر نہیں صحافی ہیں۔ عدالت نے اخبار کے ایڈیٹر سے استفسار کیا کہ ایڈیٹر کی حیثیت سے آپ کی پالیسی اس خبر کو چھاپنے کی اجازت دیتی ہے؟۔ ایڈیٹر نے کہاکہ اگر آپ کے پاس کوئی دستاویزات ہوں تو آپ سٹوری کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون سی دستاویزات؟ جو کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں، آپ سوچتے ہیں کہ آپ کا کام صرف ایک میسنجرکا ہے؟۔ انگریزی اخبار اور سوشل میڈیا میں کیا فرق بچا ہے، الیکشن سے پہلے نہ چھوڑیں تو ان کے وکلاء نے کیوں کچھ نہیں کہا؟، پورے سال دو بنچ کام کرتے رہے تب کس نے بنچ بنائے، کیا رانا شمیم اور صحافی کے پاس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ہدایات ملنے کے شواہد ہیں؟۔ اگر شواہد ہیں تو دیں میں سابق چیف جسٹس پاکستان کیخلاف کارروائی بھی کرسکتا ہوں۔ اگر میرے کسی جج نے کسی کے گھر یا کسی کے چیمبر رابطہ کیا تو میں ذمہ دار ہوں۔ سٹوری دینے والے صحافی نے کہاکہ بیان حلفی سے متعلق سٹوری میں ایک طرف سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ایک سابق چیف جج گلگت بلتستان تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس بیان حلفی میں اسلام آباد ہائی کورٹ پر الزام لگایا گیا، آپ اور سابق چیف جج کو شواہد پیش کرنے ہونگے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کیس کا بھی حوالہ دیا۔ صحافی نے کہاکہ آپ اگر کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو میرے خلاف کریں ان دونوں کا کوئی قصور نہیں۔ چیف جسٹس نے اخبار کے ایڈیٹر سے استفسار کیا کہ کیا گارڈین کو بیان حلفی دی جائے تو وہ پبلش کریگی؟۔ سٹوری دینے والے صحافی نے کہا کہ میں نے جو کیا وہ سب عدالت کی عزت کے لیے کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے عدالت کی عزت نہیں کی، خبر کے ذریعے عدالت اور ججز کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا، آئندہ سماعت پر آپ سب پھر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں غلط بیان حلفی ہوا تو نتائج کیا ہوں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ سیدھا سیدھا مجرمانہ فعل ہے، اپیلوں سے پہلے یہ سب کیسے ہوا اس کی ٹائمنگ دیکھنا ہو گی۔ عدالت نے پوچھا کہ اخبار کے مالک بتائیں کیا گارڈین ایسی خبر چھاپے گا؟ جس پر صحافی نے عدالت سے کہا کہ جو کچھ کیا میں نے کیا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر کیخلاف کارروائی نہ کریں۔ اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ ثبوت لیکر آئیں ہم سابق چیف جسٹس پاکستان کیخلاف بھی کارروائی کریں گے۔ صحافی نے کہا کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں لیکن معاملے کی انکوائری کرائیں، عمومی تاثر یہی ہے کہ سامنے آنے والا بیان حلفی جعلی ہے۔ عدالت نے اخبار کے مالک‘ ایڈیٹر اور سٹوری دینے والے صحافی کے علاوہ سابق چیف جج رانا شمیم کی معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شوکاز نوٹس جاری کررہے ہیں جو کہنا ہے تحریری جواب دیں، حاضری سے معافی نہیں مل سکتی، رانا شمیم کو پیش ہونا پڑے گا، عدالت نے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت26نومبر تک کیلئے ملتوی کردی۔ رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خوش قسمتی ہے کہ والد کا وکیل ہوں، وہ انشاء اللہ جواب کے ساتھ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے۔ فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اول فول بولا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ رانا شمیم کے بیٹے کو نوازا گیا اور ایڈووکیٹ جنرل بنایا، میں کبھی بھی ایڈووکیٹ جنرل نہیں رہا، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل رہا ہوں، یہ انکوائری طلب معاملہ ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہئے، جو حق پر ہے وہ سرخرو ہو جائے گا، میرے والد کا موقف یہ ہے کہ وہ اپنے بیان حلفی پر سٹینڈ کرتے ہیں۔