نیب کی ریکور کردہ رقم کہاں گئی ۔ اپوزیشن کا تحقیقات کا مطالبہ
نیب والوں نے دن رات ایک کر کے اتنی محنت کی اور 281 ارب روپے ریکور کئے۔ نامعلوم ہاتھوں نے ان کو بھی نہیں بخشا۔ اس خطیر رقم میں سے صرف چند ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے باقی کہاں گئے۔ یہ ہڑپ کرنے والوں کو معلوم ہے یا حکومت کو۔ وصول شدہ رقم خزانے میں اگر نہیں گئی تو کہاں گئی۔ کوئی تو ہے درمیان میں جو یہ رقم ہضم کر چکا ہے اور ڈکار تک نہیں مار رہا۔ چاہے کوئی فرد ہو یا افراد، ادارہ ہو یا ادارے سب کی مکمل چھان بین ہونی چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ یہ خزانہ کس علی بابا نے لوٹا ہے۔ ان کے حلق میں انگلیاں ڈال کر بھی اگر یہ رقم برآمد کرانا پڑے تو کرائی جائے۔ یہ کسی کے مائی باپ کا مال نہیں کہ وراثت میں تقسیم ہو گیا ہو، اگر ایسا نہ کیا گیا تو نیب کی نیک نامی پر حرف آئے گا۔ اس لیے یہ رقم کہاں گئی اس کا پتہ چلانا ضروری ہے۔ اپوزیشن کو اب اس معاملے میں دلچسپی کہیں اس لیے تو نہیں کہ اتنی رقم غائب ہوئی اور انہیں پتہ بھی نہ چلا۔ اب کوئی دریا کنارے پیاسا رہے تو ظاہر ہے اسے دکھ تو ضرور ہوتا ہو گا۔ خاص طور پر جو لوگ گنگا میں نہانے کے عادی ہیں وہ بھلا خاموش کیسے رہ سکتے ہیں سو جناب اب حکومت ہوش میں آئے اور اپوزیشن کے واویلا پر کان دھرے تاکہ کہیں کوئی اور رقم بھی غائب ہی نہ ہو جائے۔
٭٭٭٭
نسلہ ٹاور دھماکہ خیز مواد سے گرانے کے لیے کمپنی نے 22 کروڑ مانگ لیے
یہ رقم ٹاور کی تعمیر کے لیے طلب کی جاتی تو بات تھی۔ گرانے کے لیے اتنی رقم طلب کرنا تو سراسر حکومتی خزانے کو کنگال کرنے والی بات ہے۔ اتنا بجٹ تو حکومت سندھ کے کسی ایک محکمہ کا ہوتا ہو گا جو یہ کمپنی ٹاور کو گرانے کے لیے طلب کر رہی ہے۔ کہتے ہیں بنانے میں عرصہ لگتا ہے جبکہ گرانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ خواہ وہ نظروں سے گرانے والی بات ہو یا سواری سے گرانے کی۔ تو پھر یہ عمارت گرانے میں اتنے اخراجات کوئی باہوش حکومت قطعی برداشت نہیں کر پائے گی کیونکہ یہ تو خزانہ خالی کرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر ہے حکومت یہ ٹھیکہ تجاوزات گرانے والے ادارے کو دے پھر دیکھیں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا نہ آئے تو پھر کہنا ۔22 کروڑ روپے تو اس عمارت کی تعمیر میں نہیں لگے ہوں گے۔ یہ کون سی سونے چاندی کی اینٹوں سے بنی ہے۔ ہاں البتہ اس عمارت کو تعمیر کی اجازت دینے والوں، تعمیر کرنے والوں نے لاکھوں کروڑوں روپے ضرور کمائے ہوں گے۔ اس لیے مشورہ تو یہ ہے ، نسلہ ٹاور کو گرانے کے تمام اخراجات ان سے وصول کئے جائیں جنہوں نے اس کے بنانے کی اجازت دی تھی اور جنہوں نے اس کی تعمیر کی تھی تاکہ دوسروں کو بھی کان ہوں اور وہ دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ اگر یہ حساب کتاب جمع تفریق کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو نسلہ ٹاور یونہی کھڑے رہے گا ، اور اس سے نقل مکانی کرنے والے
گر یونہی روتا رہا غالب تو اے اہل ِجہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
کی تصویر بنے روتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
لیسکو ڈائریکٹرز نے اپنا اعزازیہ خود ہی 125 فیصد بڑھا دیا
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ڈائریکٹروں کا یہ فیصلہ انجمن ستائش باہمی کی خوبصورت مثال ہے۔ اجلاس بھی یہ خود ہی بلاتے ہیں اور شرکت بھی خود کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ان کے لیے خوب آم کے آم گٹھلیوں کے دام والی بات ہے۔ پہلے یہ بے چارے اجلاس میں شرکت کا معاوضہ 25 ہزار روپے لیتے تھے، اب یکدم انہوں نے یہ اعزازیہ 60 ہزار روپے کر دیا۔ بات یہاں ختم ہوتی تو زیادہ دکھ نہ ہوتا۔ ظلم یہ ہے کہ بیرون شہر سے آنے والے قیام کی مد میں 25 ہزار علیحدہ وصول کریں گے۔ اس سے آگے کی داستان بھی سنیئے اور سر دھنیئے، ان معزز بورڈ ممبران کو 20 کلومیٹر سفر کا علیحدہ سفری خرچہ بھی ملے گا۔ صرف یہی نہیں ہوائی سفر کا اکانومی کلاس کا ٹکٹ بھی انہیں دیا جائے گا۔ یوں ہر ممبر کی اجلاس میں شرکت ایک لاکھ روپے سے زیادہ میں پڑے گی۔ اب بتائیں یہ کرتے ہی کیا ہیں۔ ان کی کارکردگی دیکھیں تو رونے کا جی چاہتا ہے۔ اخراجات دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ شاہانہ اخراجات کس مدد میں ادا کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب ادارے کے ملازم نہیں ہوتے ۔ تنخواہ نہیں لیتے کہ ان کے آنے جانے اجلاس میں شرکت کے اخراجات بھی ادارہ ہی ادا کرے۔ یہ خود ہی ان اخراجات میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور اس کی منظوری بھی خود ہی دیتے ہیں۔ یہ دونوں ہاتھوں سے یہ جنت کے مزے لوٹتے ہیں وہ بھی عوام کے پیسوں سے۔
٭٭٭٭
کرکٹر رضوان اپنا تکیہ ہر وقت ساتھ لیے پھرنے لگے
جس طرح کچھ مخصوص الفاظ یا جملے کو ہر بات میں یا بار بار دہراتے ہیں وہ تو تکیہ کلام کہلاتا ہے۔ اب یہ جو وکٹ کیپر محمد رضوان جس طرح اپنے تکیہ کو گود میں لیے پھرتے ہیں اس کو کیا کہا جائے گا۔ کچھ لوگ اسے تکیہ سے محبت قرار دیتے ہیں، کوئی خیال یار میں تکیہ سینے سے لگانا کہتے ہیں اور بھی لوگ کیا کچھ کہتے ہوں گے مگر آفرین ہے رضوان پر کہ وہ کسی بات کا برا نہیں مانتے۔ اب انہوں نے خود ہی ہر وقت تکیہ گود میں اٹھائے، سینے سے لگائے رکھ کر چلنے پھرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ تکیہ اس لیے ہر وقت سینے سے لگائے رکھتے ہیں کہ یہ ان کامیڈی کیٹڈ سرہانہ ہے جو وہ اپنی گردن کی درد کم کرنے کے لیے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس پر اب لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہئے۔ کسی کو اعتراض کرنا نہیں چاہئے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کئی دلوں میں تو خواہش ہو گی کہ وہ اس تکیہ کی جگہ ہمہ وقت رضوان کے ہاتھوں میں گلے سے لگے رہتے۔ یہ وہی میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا یا کان کا جھمکا ہوتا والی خواہش ہے کئی لوگ تو …؎
خواب ہائے دلنشیں کا اک جہاں آباد ہو
تکیہ جنت سے اٹھا لائیں اگر ارشاد ہو
کی خواہش کرتے ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھی بھرتے ہوں۔ اب اس تکیہ کی قسمت ہے جو دن کو سینے سے لگا رہتا ہے اور رات کو سر تلے ہر پہلو سے قرار کا باعث بنتا ہے۔