قومی اسمبلی: حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں نوک جھونک، ایک دوسرے پر الزمات

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں منگل کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا تو اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں نوک جھونک ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت مانگی۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہاکہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر چار گھنٹے آگ والی جگہ پر رہے، یہ عوامی ایشو ہے مگر افسوس ہوا کہ کہا جاتا رہا کہ وہاں ایم کیو ایم  ارکان تھے وہاں کوئی نہیں تھا۔ قادر ٹپیل  نے کہا کہ ایم کیو ایم والوں کو وزیراعظم شکل سے بھی نہیں پہچانتے ہونگے۔ وزیر مواصلات مراد سعید نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت نہیں لے  کرآئی، وزیر اعظم عمران خان نے حق حلال کی کمائی کی 40 سال کی منی ٹریل پیش کی۔ سابق چیف جج رانا شمیم کو 2015 میں نواز شریف نے جی بی میں لگایا ان کو جسٹس قیوم جیسے جج چاہئیں، لندن میں بیٹھ کر مغرور اور نااہل نواز شریف خاندان پاکستان کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ پی ٹی آئی کیعالمگیر خان  نے کہا کہ کراچی میں جب سو سو قتل ہورہے تھے تو کس کی سندھ میں حکومت تھی، ہمیں جمہوریت کا سبق دینے کی بجائے سندھ میں کارکردگی دکھائیں۔ ن لیگ کے میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ 74 سالوں سے کہتے سنتے آرہے ہیں اداروں میں آزادی نہیں، انصاف نہیں مل رہا ہے۔ اجلاس سے فہیم خان، محسن داوڑ، کشور زہرا، شہناز نسیم بلوچ، علی اعوان، نوشین افتخار، راجہ خرام شہزاد، سید محمود شاہ، لال چند نے  بھی خطاب کیا۔ ایم کیو ایم کے اسامہ قادری  نے کہاکہ جس مسئلے کو اٹھایا تھا اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انہیں متاثرین کی دل جوئی کرنی چاہیے، آگ کے  متاثرین کے مطالبے پر سندھ حکومت کے خلاف احتجاج بھی کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہاکہ کراچی کی تاریخ آگ لگنے اور لگانے پر بھری پڑی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 270 لوگ زندہ بھی جلائے گئے، معاوضہ بھی کھا لیا گیا تھا، کراچی میں آگ لگنے کا واقعہ خود بخود کیسے ہوگیا، یہ لوگ حیران ہیں کیونکہ ہمیشہ آگ لگانے والوں کے پیچھے تو یہی ہوتے تھے۔ قادر پٹیل نے ایم کیو ایم کو چیلنج کرتے ہوئے کہاکہ ایک گھنٹے کی مہلت ہے  میں اپنے وزیراعلیٰ سے بات کرتا ہوں، سندھ حکومت نے اب تک کیا کیا، یہ اپنے وزیر اعظم سے بات کریں وہ کیا کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے میر غلام علی تالپور نے کہاکہ اس اسمبلی نے 3سال میں کسی مسئلہ کا کوئی حل نہیں دیا، اگر آگ بجھانے کا نظام صحیح ہوتا تو کراچی میں آگ نہ پھیلتی، پی ٹی آئی کے عالمگیرخان نے کہاکہ سندھ میں مافیا کی طرز پر حکومت چلائی جارہی ہے، یہ ڈھکن چور ہیں، یہ وزیراعلی سندھ سے پوچھیں چوری گندم کہاں گئی؟۔  رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور عنقریب خان صاحب بھی ہماری صف میں ہوں گے، انہوں نے کہاکہ علی وزیر کا کیس کیوں نہیں لگ رہا، انہوں نے کہاکہ ٹی ایل پی پر جو ہوا ٹی ٹی پی پر جو ہورہا اس کو بھی ایوان میں لائیں، ایوان کو ڈس فنکشنل نہ کریں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے ایک بار پھر اپوزیشن کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یہاں لیکچر نہ سنائیں، ہم سے پہلے کیا ہوا ،کہاں کھڑے تھے؟ کیا ہمارے آنے سے پہلے کوئی میرٹ تھا۔  مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار نے کہاکہ ایمانداری کا روز درس دینے والوں نے این 75 کے ضمنی انتخاب میں دھونس دھاندلی کی انتہا کردی۔  پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی امجد علی نیازی نے کہاکہ جسٹس قیوم والے معاملے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ آپ ڈھیل اور ڈیل دونوں چاہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا ہے کہ آج ای وی ایم کا بل آنا ہے حکومت الٹے سیدھے کام کرکے پھر معافی مانگے گی تو ان کی تلافی نہیں ہوگی۔ جے یو آئی کے محمود شاہ نے کہاکہ بلوچستان کو آپ مسائلستان کہہ سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں لال چند کا خطاب جاری تھا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی مزید کارروائی جمعہ 19 نومبر صبح گیارہ بجے  تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن