اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان مشترکہ ذمہ داری کا حصہ ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں مذاکرات اور مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کا مسلسل موقف رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن جموں و کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل پر منحصر ہے۔ شاہ محمود قریشی نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) میں زیر تربیت افسران سے ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی اور درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں زیر تربیت افسران کے ساتھ بات چیت کرنا ہمیشہ خوشی کا باعث رہا ہے۔ مجھے کئی دوست ممالک کے باسی شرکاء کو پاکستان کے سول اور فوجی افسران کے ساتھ اکٹھے دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ کنیکٹیویٹی کے حوالے سے سی پیک، ایک اہم اقدام ہے۔ پاکستان اس فریم ورک کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے۔ گوادر پورٹ CPEC فریم ورک کے اہم اجزاء میں سے ایک ہے۔ پاکستان CPEC کے تحت ساتھ بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کرنے والے دیگر ممالک کو خوش آمدید کہے گا۔ اس طرح علاقائی روابط اور مشترکہ ترقی کے ہمارے وژن کو عملی شکل ملے گی۔ وزیر خارجہ نے کہا ہمارا مقصد روزگار کے مواقع اور علاقائی تجارتی روابط کا فروغ ہے۔ ہم CPEC کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان مشترکہ ذمہ داری کا حصہ ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں مذاکرات اور مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے عالمی برادری کا اتحاد ہے۔ بدقسمتی سے، امن مخالف عناصر، ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہمارے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت، ہم نے دنیا بھر میں کشمیر کاز کو ایک نئے جوش اور عزم کے ساتھ اٹھایا، اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 55 سال کے وقفے کے بعد ایک سال میں تین مرتبہ کشمیر کی صورتحال زیر بحث آئی۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا جائز اور ناقابل تنسیخ حق، حق خودارادیت ان کو حاصل نہیں ہو جاتا۔ ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو بہت قابل قدر اور باہمی طور پر فائدہ مند ہیں۔ ہم امریکہ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے تعلقات کو عملی اور غیر جذباتی انداز میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے، پاکستان نے ہمیشہ پل کا کردار کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ دریں اثناء سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمو د قر یشی نے کہا ہے کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ افغانستان میں سول وار اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ ٹل گیا، ہم نے طالبان کی عبوری قیادت کو قائل کیا کہ وہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کریں جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا ایک واضح امکان پیدا ہوا ہے، عالمی برادری کا بنیادی مطالبہ محفوظ راستے کی فراہمی تھا جس میں ہم نے بھرپور معاونت کی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اجلاس چیئرپرسن شیری رحمان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔
مسئلہ کشمیر نئے عزم کیساتھ اٹھایا، ہندو تواخطے، عالمی سلامتی کیلئے بڑا غطرہ: شاہ محمود
Nov 17, 2021