ادب پروری میں انحطاط

اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسانی شکل میں ہی بنایا اور اسے اشرف المخلوقات سے نوازا ، صاف ظاہر ہے کہ انسان پیدائشی طور پر  انسان ہی تھا ناگدھا اور نا ہی بندر ، لیکن ڈارون نے نقل کرنے میں خود کو بندر سمجھ لیا اور ساری انسانیت کو بندر سے تشبیہ دے دی، نقل کرنا ایک فطری عمل ہے جو کہ انسانوں اور جانوروں کی مشترکہ حِس ہے ، چھوٹی عمر کا بچہ اگر بندر کی طرح سے نقال ہوتا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انسان پہلے بندر تھا۔  
 اردو ادب میں سودا کے بعد گدھوں پر کسی نے توجہ نہیں دی ،گدھوں کو اعزاز و وقار سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ مزاجاً خاک نشین ہوتے ہیں، یہ کرسی کا استعمال نہیں جانتے اس لئے اگر انہیں غلطی سے کرسی مل جائے تو یہ دھڑام سے نیچے گر جاتے ہیں، ان کا کوڈ ورڈ ’’ڈھانچوں ڈھانچوں ‘‘ ہے ، ملکی سیاست میں آجکل یہی کوڈ ورڈ چل رہا ہے ، مطلب اس کا ’’رب ‘‘ جانے یا گدھے عوام اسے سمجھنے سے قاصر ہیں جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔
 موجودہ ملکی معیشت کے حوالے سے تو ’’ ڈھا ں‘‘ پنجابی میں مسمار کرنے اور گرانے کو کہتے ہیں جیسا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملکی ادارے ، کرنسی اور معیشت کو ’’ڈھا‘‘ دیا ہوا ہے ، بہتری کی نہ ہی کوئی امید کی جاسکتی ہے اور نہ انکے بس کی بات ہے، جو اپنی لیاقت اور پاور سے خالی ہر کام سے عاری ہیں،بس ’’ ڈھا دے جو کج ڈھیندا ای ‘‘ کوڈورڈ کا دوسرا حصہ ’’چوں‘‘ کا مطلب حکمرانوں کی موجودہ پالیسیاں ، حکومتی اتحادچوں چوں کا مربہ ، ڈھانچوں ڈھانچوں کا پورا مفہوم سمجھنا ہو تو آجکل کے حکمرانوں کا واویلا ہے ، کرپشن کا شوروغوغا ہے،اصلاح کی اپنائیت سے دور رہ کر مصلح سے اچھی بات اصلاح میں قبول کرنا گناہ اور بیوقوف کی ہر بات کو تسلیم کرنا کارِ ثواب اور برائی کو قریب رکھنا ہی برادری میں شامل رہنا ضروری مفاد میں ہے،  ورنہ  راہرو کجکلا ہ سے ساتھ چھوڑنے کی سزا سے بچنا مشکل ہو جائے گا ، گدھوں کی ڈگر پر چلنے والا بندہ انسان کب رہتا ہے گدھا ہی کہلاتا ہے،جیسے ڈارون نے اپنی حرکات و سکنات بندرکو نقل کرتے دیکھ کر خود کو بندر تسلیم کر لیا تھا ۔
دورِ حاضر میں غریب روزگارسے محروم ہو کر رہ گیا ہے غریب کی کمائی روٹی روزی ہی کی بات نہیں سابقہ کمائی ،سرمایہ، جائیداد، دولت،جانی تحفظ اور ایمان و وقار کی حفاظت بھی مشکل ہو چکی ہے ، ہر چیز لُٹ رہی ہے ، حیاء سرِ عام پٹ رہی ہے محفوظ وہی ہے جو لوٹنے میں مگن ہے جن کا مال ’’حرام بودبجائے حرام رفت‘‘ کے راستے میں خرچ ہو رہا ہے، حرام خور وں کو انعام واکرام سے نوازا جا رہا ہے سفید پوش حلال کمائی کے طالب بھوکے مر رہے ہیں خود کُشیاں کر رہے ہیں ،حکمرانوں کو اپنے مخالفین پر الزام تراشیوں سے فرصت نہیں ملتی اس کیلئے ایک فوج ظفرِ موج ہے ، مزدور کا خون چوسنے والے مافیاز نے مزدور کو زندہ درگور کر دیا ہے، ساغر صدیقی غریب کی کمائی کے لُٹ جانے پر کہتے ہیں کہ۔

جس دور میں لُٹ جائے غریبوںکی کمائی 
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
موجودہ دور میں بھول نہیں نا اہلی سے ملک لُٹ رہا ہے ، کھیویا کھینے والے کو کنارہ نہیں ملتا، مزارع کو محنت کا کچھ صلہ نہیں ملتا اس کا سبھی کچھ بیاج اور مالیہ لگان گزاری میں چلا جاتا ہے ، یہ بات صرف زمیندار طبقہ ہی نہیں صنعت کار، پیشہ حرفہ سبھی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ادیب، شعراء ، صحافی بھی محفوظ نہیں ان کی اچھی مثالی اور تحقیقی تحریر پر نظر کبھی نہیں ٹھہرے گی ، بس ایک غلطی کیا ہوئی سارے کا سارا کیا دھرا ضائع کر دیا ، گولی ،تشدد اور اغوا بھی حربے ہیں ،تنقید برائے تنقید کرنے والوں کا راج ہے جو  اُن کی سوچ اور فکر کے مطابق نہیں‘وہ ہر چیزناجائز ہے لکھنے یا کہنے والے کے ذہن و فکر کے مطالب نکانے کے بجائے ، منفی سوچ سے اپنی مرضی کے معنی اور مطلب کو یکسر بدل کر چہرہ ء تحریر کو مسخ کر دیتے ہیں ۔
محترم وزیرِ اعظم کہتے ہیں:
 ’’ ہمارے ملک میں جب اخلاقیات تباہ ہوئیں تو معیشت بھی گر گئی‘‘جہاں پناہ بتائیں کہ کنٹینر سے لیکر 2018 ء کے الیکشن میں اخلاقیات کی دھجیاں کس نے بکھیریں ،گندی زبان کے استعمال کا رواج کس نے ڈالا،تضاد کے ظہور میں برائی پر نیکی کو فوقیت دینے کے باعث بیان یا نشاندہی سوء ظن تشہیر برائی نہیں اچھائی و خوبی کی اجاگری اور ظہور ہے،قوم حکمرانوں  سے اچھے اعمال و کردار کی خواہاں ہے لہذا ادب کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں تعمیری تنقید سے حوصلہ افزائی ہو تی ہے منفی تنقید کے باعث باہمی نفرت وعناد اور بغض پیدا ہوتے ہیں،اس سے اجتناب کیا جانا چاہئے،تاکہ ادب پروری میں انحطاط کے بجائے ادب پروری پروش پائے ۔امثال وتمثیل کی ڈگر میں کسی کو نکتہء تنقید بنائے بغیر اصلاح پر مبنی یہ کاوش ہے کوئی خود اپنے آئینہء دل میں جھانکے تو یہ اس کا اپنا احساس اور صوابدید ہو گی۔ 

ای پیپر دی نیشن