کچھ موٹیویشنل سپیکرز کے بارے میں

آج کل جوں جوں موٹیویشنل مقررین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اسی تناسب سے انکی افادیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔کیا سابقہ یا موجودہ کتب جن میں الہامی اور مقدس کتب بھی شامل ہیں، میںزندگی کے بنیادی حقوق و فرائض ، رہن سہن ، طور اطوار کے بارے میں کیا نہیں لکھا گیا جو ان موٹیویشنل سپیکرز نے کچھ نیا کر دکھانا ہے کہ سچ ہے اس پر کیسے چلنا ہے کسی کا حق غصب نہیں کرنا ، باہمی رواداری ضروری ہے وغیرہ ۔سکندر اعظم سے لے کے آج تک تمام بڑے بڑے اشخاص کے فرمودات عرصے سے ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں لیکن دنیا کی تکالیف ، زمینی حقائق ، تلخیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور ہیں۔ ان کا مداوا ان حالات کے مطابق ان کے حل میں مضمر ہے۔ مثال کے طور پرمہاتما گاندھی کی کتاب تلاش حق ،آئن سٹائن سکندر اعظم ، سقراط، زوکربرگ سے لیکر بشمول انبیا ء کی الہامی کتابیں پند و نصائح سے بھری ہیں اور ہمیں ان کو غور سے پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔،، امر بل معروف و نہی انل منکر،، کے سلیس و جامع اسباق بنائے گئے ہیں۔کیا موجودہ دور میں ان مقررین کے پر اثر دلائل ، مسجد کے خطیبوں یا استادوں کی جگہ تو نہیں لے رہے یا ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال ، گلوبلائزیشن ، نیٹ کا استعمال عام انسان کے ذہن کو افکار پریشاں میں زیادہ مبتلا نہیں کر رہا ، اس مادی یونی پولر ورلڈ میں ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مسابقت اور لمحوں میں دنیا کے تمام چینل سے دنیا کے ہر کارنر سے بجلی کی سی سرعت سے آتی خبریںہر زاویہ پر حاصل آگہی اور آن لائن پروگرامز انسانی فکرکو پہلے سے کہیں زیادہ مختلف نوع تو نہیں کر رہے لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے رہنے والوں کے مسائل کی نوعیت اور سوچ غریب ممالک کے شہریوں کے مسائل کی نوعیت میں فرق ہے۔ ماہر نفسیات کی جتنی تعداد کی اشد ضرورت ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو ہے ، اس سے کہیں کم غیر ترقی یافتہ مالک میں محسوس کی جا رہی ہے ۔ غم ، خوشی راحت، عمر، صحت اور موٹی ویشن ہر ذی شعور کو اس کی اپنی سوچ یا دل کے مطابق ہوتی ہے۔ بڑی عمارتیں ، کشادہ سڑکیں، بڑی گاڑیاں، ہائی ویز چند دنوں تک تو دل کو لبھا سکتی ہیں ، زیادہ دیر تک نہیں ،انسانوں کا انسانوں سے سلوک ایک چھو ٹے سے گھر کو جنت، ایک ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈیوں والے گائوں کو ،،ورلڈز ورتھ ،،کے مطابق ایک ،،اپرائٹ مین،، کی زندگی کو آئیڈیل قرار دیتا ہے۔مادیت کی اس بڑھتی ہوئی دوڑ میں ہر کوئی مسابقت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو نیجا دکھانے میں لگا ہوا ہے اور بقول اقبال ، ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا ، اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اور فورسٹار نہیں تو کسی سجے آڈیٹوریم میں کسی موٹی ویشنل سپیکر کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھاہوا ہے۔مزا یہ ہے کہ موٹیویشنل سپیکر بھی ان سے اچھی خاصی رقوم بٹور رہے ہوتے ہیں۔ان مقررین کی ذاتی زندگی بھی انہی نشیب و فراز سے گزر رہی ہوتی ہے جن سے ہم دست و گریباں ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ حوصلہ بڑھانے والے خطیب زور خطابت سے اپنے انداز بیاں کو پر اثر تو بناتے ہیں ہر شخص کے ذاتی و زمینی مسائل سے ان کو نبرد آزما ہونے کی اخلاقی ہمت پیدا کرنے کے دعوے دار تو ہوتے ہیں۔لیکن کتنے دنوں کے لئے، کتنے مہینوں کے لئے ۔لیکن موٹی ویشنل مقرر دعوی کر تے ہیں کہ وہ مختلف واقعات سے اپنے تجر بے ، خیالات، مشہور شخصیات کی کہاوتوں سے نئے آئیڈیاز انرجی، حوصلہ، اعتماد، کار کردگی بڑھانے میں مدد دیتے ہیں اور خوف، غیر یقینی کی فضاکو ختم کرنے میں مدد کر تے ہیں۔لیکن صرف ان کوسننے سے بغیر خودپڑھے مشاہدہ کئے پیدا شدہ لگن یا مقصد حیات کم ہی پیدا ہو تا ہے صرف عمل کر ضرورت ہوتی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر گھنٹوں ضائع کر نے کے باوجود مقرر کی تقریر کا اثر زیادہ دیر نہیں رہتا اور وہ جو کہہ رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ تر کتابوں میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ویسے بھی یہ موٹیویشنل سپیکرز خود کوئی دنیاوی یا روحانی ارفع مقام حاصل نہیں کر چکے ہوتے عمومی لوگ صرف نامی شخصیات کی بات دل لگا کرسنتے ہیںقارئین یاد رہے مقصد حیات کا چنائو اور اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے جوکسی انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ موٹی ویشنل سپیکرز کی سوشل میڈیا پر تقریریں سننے سے۔ہمارے معاشرے میں جہاں اکثریت خط غربت سے نیچے، مہنگائی تلے دبے ہوئے انصاف سے کوسوں دور روٹی روزی کے چکر میں خوار ہو وہاںان حوصلہ افزائی کرنے والے خطیبوں کی عملی افادیت بلند بانگ دعوئوں چکنی چپڑی باتوںکے باوجود معاشرے کی مجموعی فلاح و ذہنی آسودگی پر صرف تھوڑے عارضی عرصے تک مثبت اثرات مرتب کرسکے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...