اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں نیب بننے سے ابتک ہونے والی تمام سزاؤں کی تفصیلات کل جمعہ تک طلب کر لیں۔ عمران کے وکیل نے دلائل میں کہا عہدے دار عوامی اعتماد کا حامل اور جوابدہ ہوتا ہے۔ اگر عوامی عہدے دار کرپشن کرے تو عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ مفروضوں پر نہیں، آئین کی بات کر رہا ہوں، عدالت کی ذمہ داری بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ توہین عدالت 2012ء ایکٹ لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ توہین عدالت کا قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت نے قانون سزائوں کی عدم قابلیت پر اڑایا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بنایا گیا قانون پارلیمنٹیرینز کی عدم قابلیت پر اڑایا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا عدم قابلیت پر نہیں بلکہ توہین عدالت قانون جانبدار ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کہاں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی قابلیت نا ہونے کی وجہ سے قانون کالعدم ہوا؟ عدالت نے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی مسترد کی لیکن کبھی نہیں کہا کہ پارلیمان کی قابلیت نہیں، عدالت نے کبھی پارلیمان کی اہلیت یا قابلیت پر سوال نہیں اٹھایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ کہیں لکھا نہیں بلکہ سمجھ کی بات ہے، جعلی بنک اکائونٹس کیس میں بھی بنیادی انسانی حقوق کا تعلق عوامی اعتماد سے جوڑا گیا۔ نیب کیس مختلف ہے، خواجہ حارث نے کہا اب بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینا ہے یا نہیں، عدالت دیکھے، جس کے بعد کیس کی مزید سماعت آج 17 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔