مک مکا کی پالیسیاںملک کی جڑیںکمزور کرتی ہیں 


22کروڑ کی عظیم مملکت اس وقت تاریخ کے بد ترین خلفشار سے گزر رہی ہے، حکمران ہوں یا اپوزیشن۔ اپنی بات خود ہی کاٹ رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے پاس اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ ایڈہاک بنیاد پر حکومت ہے جس کے ہاتھ پیر اس نے شائد خود ہی باندھ رکھے ہیں ایک عبوری صورتحال ہے ۔ ہر قومی سیاسی پارٹی کہیں نہ کہیں حکمران ہے۔ جلسے جلوس۔ پریس کانفرنس۔ سوشل میڈیا۔ بد زبانی اپنے عروج پر ہے۔ اخلاقیات کے جنازے اٹھ چکے ہیں۔ جاگیردارانہ۔ قبائلی طرزِ معاشرت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ سنجیدگی۔ تدبر۔ معاملہ فہمی بزدلی سمجھی جارہی ہے عوام ایک ووٹر کی حیثیت سے سخت اُلجھن میں ہیں ایک مفکر کے بقول دنیا کی سچائی یہ ہے کہ کوئی وقت ایک جیسا نہیں رہتا، تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے اسلئے اپنے طرز حکومت ، طرز زندگی میں تدبر لازمی ہے ۔ جو منہ میں آئے وہ بولنے سے بچوںکو ابتداء سے منع کیا جاتا ہے یہ والدین کا اپنا ذاتی تجربہ ہوتا ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر قابض سیاست دان چاہے حزب اختلاف میں ہوں یا حکومت میںساٹھ اور ستر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں مگر تدبر ناپید ایٹم بم اور بہادر مسلح افواج کے زیر سایہ زندگی گزارتے ہوئے ناز کرتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں عوام کو جھوٹ بول بول کر سیاست دانوں نے اپنے گرد ہجوم اکٹھا کر لیا ہے ، اسے ہجوم ہی کہا جا سکتا ہے چونکہ عوام کا اگر ساتھ ہوتو وہ تو سمجھدار ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاست دانوںنے انکی عقلوںکو گہن لگا دیا ہے، وہ اپنی پریسثانیوں ، مہنگائی، بے روزگاری میں اتنے پس گئے ہیں کہ سیاست دانوںکے متضاد بیانیوں، وعدوں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کے پیچھے مجمع لگا دیتے ہیں۔ اس مجمع کو سیاست دان اداروں اور اپنے مخالفین کو بلیک میل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔تحریک انصاف نے تو حد کردی جو اپنے چار سال کے دور اقتدار میں دھرنوں میں کئے گئے وعدے پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکی ، معاشی حالات بد سے بد تر ہوتے رہے ، جب معیشت خراب ہوجائے تو وہ الہ دین کے چراغ سے بہتر نہیں ہوتی، تحریک انصاف نے تو اقتدار سے علیحدہ ہوکر قرض دینے والے ادارے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھ مارا کہ نئی حکومت بیرونی سازش کے تحت ہے اور عوام اس کے ساتھ نہیں، پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی نے اپنے ملک کے خلاف اس طرح کے خطوط لکھے ہوں ، اسی طرح کے دیگر اقدامات پر پاکستان کی حکومت ، عدلیہ اور مقتدر اداروں میں سے کسی نے تحریک انصاف کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو بھی متنازعہ بنا دیا کہ یہ اختیار وزیر اعظم کا نہیں، تحریک کے سربراہ سے مشورہ کیا جائے، اس کے لئے انہوں نے وفاق کی علامت صدر پاکستان کو بھی استعمال کیا۔ 
قانون موجود ہے اگر مک مکا کرنے کے بجائے قانون کو مقدم رکھیں تو یہ 75 سال کے عرصے سے جاری میوزیکل چیئر نہ ہو بلکہ عوام کی حکومتیں بنیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں کو خراب کرتی ہیں اور اپنی چند نشستیں حاصل کرکے اپنے مفادات کا سودا کر کے حکومتیں بناتی اور گراتی ہیں۔ عمران خان کی بڑی بڑی کہانیوں میں سب سے بڑی کہانی وہ غیر ملکی سازش تھی جس کا چورن انہوں نے جی بھر کر فروخت کیا ، عوام کو گمراہ کیا، اپنے سوشل میڈیا سے ٹرینڈ بنایا، اداروں کو بدنام کیا اور پھر دیگر یوٹرن کی طرح ایک صبح اچانک پراپیگنڈہ بھی واپس لے لیا۔ وزیر آباد کا حملہ اگر سچا تھا تو یہ تو ان کے اپنے صوبے میں ہوا جو وزیر داخلہ کے وارنٹ گرفتاری تو جاری کر سکتا ہے لیکن وزیر آباد حملے کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ ایف آئی آر کے اندراج میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں کیوں اختلاف رہا؟ تحریک انصاف کے سربراہ کے زخمی ہونے کے باوجود ان کا بلیڈ ٹیسٹ کیوں نہ ہوا؟ کیا خدشات تھے؟ جس بناء شوکت خانم ہسپتال کا کیوں انتخاب کیا گیا؟ حملہ آور کو گرفتار کیا گیا ، مگر اس ہڑبونگ میںاپنے بچوں کے ساتھ لانگ مارچ دیکھنے کے لیے آنے والا ایک معصوم شہری لقمہ اجل بن گیا۔ حملہ آور پنجاب پولیس کی حراست میں ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے ماتحت ہے۔ اگرچہ اب بھی تحقیقات جاری ہیں لیکن اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق اس حملہ آور کا تعلق باقاعدہ کسی تنظیم کے ساتھ نہیں لیکن یہ اور بھی خطرناک بات ہے نجانے ایسی ذہنیت رکھنے والے کتنے اور آزاد گھوم رہے ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنی سکیورٹی کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کریں۔ کسی بھی سیاست دان یا شخص پر حملے پر سیاست کرنے سے بہتر ہے کہ اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔ عوام کی جانب سے مایوسی کے بعد اب شاید پی ٹی آئی قیادت کی سوچ مثبت انداز میں تبدیل ہوئی کہ کم از کم غیر ملکی سائفر والے معاملے سے پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ الحمداللہ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...