موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی سطح پر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،عالمی برادری کو پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کے ماحولیاتی مالیاتی معاہدے پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔اس حوالے سے پاکستان کے پارلیمانی وفد نے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (کوپ 27)کانفرنس کے27ویں اجلاس میں شرکت کی ۔اجلاس بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) اور مصر کے ایوان نمائندگان کے تعاون سے شرم الشیخ مصر میں منعقد ہوا۔پاکستانی وفد کے شرکا نے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر بات کی جن میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی سطح پر ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کو کاربن کے اخراج میں کمی لانے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی مالیات کو متحرک کرنے کو کہا۔ بین الاپارلیمانی یونین کے ذریعے عالمی پارلیمانی برادری کے مابین موسمیاتی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے بات چیت کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیاگیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصانات سے آگاہ کیاگیا۔اس وقت پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے جس سے بڑے پیمانے پر جانی و معاشی نقصانات ہوئے ہیں۔پاکستان کے کئی علاقوں میں سیلابی پانی اب تک موجود ہے اور ان علاقوں کے عوام کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی برادری کو پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کے ماحولیاتی مالیاتی معاہدے پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مڈل ایسٹ گرین انیشیٹو (ایم جی آئی) اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آف پارٹیزکوپ 27 کانفرنس سے پاکستان اور مشرق وسطی کے ممالک میں ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔
ایم جی آئی نے بین الاقوامی پائیداری کی کوششوں کے لیے سعودی عرب کے عزم کی نشاندہی کی ہے اور خطے کو اس قابل بنایا کہ وہ واضح طور پر ایک بھرپورروڈ میپ وضع کر کے کرہ ارض کی حفاظت میں معاونت کر سکے اور عالمی اہداف کے حصول میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے۔ مذہبی رہنما عالمی سطح پر باہمی اور بین المذاہب مکالمے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز کے بارے میں مسلسل آگاہی پیدا کر رہے ہیں۔اس حوالے سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں اور حکومت مصر کے تعاون سے ماحولیات کی عالمی کانفرنس نے عالمی سطح پر بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص ایک موثر اور مثبت سمت کا تعین کیا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک عظیم اور بصیرت آمیز رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ پاکستان نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کے علاوہ پہلے ہی سعودی ولی عہد کے سعودی اور مشرق وسطی کے گرین انیشیٹوز کے وژن کا خیرمقدم کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے، اس صورتحال میں کرہ ارض پر متوقع بحرانوں کے حوالہ سے سنجیدہ رہنے کی ضرورت ہے، کاپ۔ 27 کے فورم پر دنیا اتحاد، اشتراک اور تعاون کا جذبہ رکھتی ہے ۔اس موقع پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے حوالہ سے ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ تاہم اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے کرہ ارض کے ساتھ کیا رویہ اپنا رہے ہیں، اس کرہ ارض کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کہ کہیں اور آباد ہوں یا کہیں ہجرت کر سکیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے سیلاب کے حوالہ سے جو ویڈیو دکھائی گئی اس میں موسمیاتی تباہی کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھائی گئی،اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اس سے قبل سیلاب سے اتنی شدت کی تباہی نہیں دیکھی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی حدت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ تک ہی قائم نہیں رہے گی بلکہ مستقبل میں یہ 3 ڈگری سے تجاوز کر جائے گی۔ پاکستان میں موسمی تبدیلی کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتی ہیں جہاں گرمی کی شدت میں 3 ڈگری اضافہ ہوا ہے جہاں رہائش کے حوالہ سے بڑے مسائل ہیں، ہمیں انسانیت اور اپنے کرہ ارض پر آنے والے چیلنجوں کے حوالہ سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سال پاکستان میں گرمی کی شدت کی وجہ سے جنگلات آگ کی لپیٹ میں رہے، سب سے زیادہ درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا جہاں پرگرمی کی شدت سے اموات بھی ہوئیں۔
کاپ۔27 سے یہ امیدیں پیدا ہوئی ہیں کہ قدرتی آفات سے زیادہ متاثرہ علاقوں کو محفوظ بنایا جا سکے گا اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کی روزی روٹی اور مستقبل انہیں واپس ملے گا، انہیں زندہ رہنے کیلئے روزگار، سانس لینے اور شہروں میں کام کرنے کا بنیادی حق ملے گا۔ تاہم اس فورم پریہ امید ظاہرکی گئی کہ ارادوں سے عمل، عزائم سے تکمیل اور زمینی ترسیل کی طرف تیزی سے گامزن ہوں گے۔ پاکستان میں اس وقت حکومت کو اب بھی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی آباد کاری، انہیں خوراک کی فراہمی اور ان کیلئے لباس کی فراہمی کا چیلنج درپیش ہے، پاکستان نے اپنے وسائل طوفانی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہونے والے تین کروڑ 30 لاکھ افراد کی طرف موڑ دیئے ۔ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے کاپ۔ 27 فورم میں اس اجتماعی ذمہ داری کے زیادہ سے زیادہ حصہ کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ اس سال مون سون کی شدت قدرے زیادہ رہی جس کی وجہ سے سیلاب آئے، پاکستان کے گلیشیئرز تین گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں، ملک کے شمال میں برفانی جھیلوں سے آنے والے سیلاب سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی مدد سے ارلی وارننگ سسٹم کی وجہ سے انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق موسمیاتی اثرات اس وقت بڑی ہنگامی صورتحال کے طور پر سامنے آئے ہیں، عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو سیلاب سے تقریباً 30 ارب ڈالرسے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ اگر اس حوالے سے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو درجہ حرارت کی شدت میں اضافہ قابو سے باہر ہو گا۔ ورلڈ بینک کے تخمینہ کے مطابق پاکستان کو 2050ء تک 348 ارب ڈالر کی آب وہوا کو معمول پر لانے کیلئے کلائیمٹ فنانسنگ کی ضرورت ہو گی۔یہ امر حقیقی ہے کہ جب ایک ماحولیاتی نظام دفن ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ فطرت کا قانون ہے کہ وہ دوسروں تک پھیل جاتا ہے اور اس وقت جو کچھ موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سے پاکستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان میں ہی نہیں رہے گا۔