اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بلوچستان حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت بلوچستان کو 47 سال میں ریکوڈک منصوبے سے 32 ارب ڈالر سرمایہ ملے گا۔ بلوچستان حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ریکوڈک منصوبے سے حاصل ہونے والے کل سرمائے میں 25 فیصد حصہ بلوچستان حکومت کا ہے، سرمائے کے 25 فیصد میں سے 15 فیصد ہولڈنگ اور بلوچستان کی آف شور کمپنی کا حصہ ہو گا، حکومت بلوچستان کو 25 فیصد سرمایہ، 5 فیصد رائلٹی، سی ایس آر اور نوکریوں کی سہولت ملے گی۔ چیف جسٹس نے کہا ریکوڈک منصوبے کی تکمیل کب ہو گی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ڈھائی سال میں ریکوڈک منصوبے کی فزبیلٹی سٹڈیز، اور اگلے پانچ سال میں باقاعدہ کام شروع ہو گا، ریکوڈک معاہدے کے لیے چائنہ، جاپان اور روس کی کمپنیوں نے بھی رابطہ کیا، لیکن چائنہ، جاپان اور روس کی کمپنیاں پاکستان پر لگے 9 بلین ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی پر تیار نہیں تھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پاکستان کے خلاف بین الاقوامی مرکز برائے تنازعات حل اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کیا کیس ہے؟ جس پر وکیل نے عدالت کو بتا یا کہ بنیادی طور پر تو بین الاقوامی مرکز برائے تنازعات حل میں حکومت پاکستان کے خلاف معاہدے کی خلاف ورزی کا کیس ہے، جبکہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں بلوچستان حکومت کے خلاف معاہدے کی خلاف ورزی کا کیس ہے، پاکستان نے 15 دسمبر تک معاہدہ نا کیا تو متاثرہ کمپنی قانونی کارروائی کرے گی، جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا کیا سونا اور تانبے کے علاوہ ہوا دیگر معدنیات کی لیز بھی دی جائے گی؟ جس پر وکیل نے کہا سونے اور تانبے کے سوا تمام معدنیات کی لیز بھی بیرک گولڈ کمپنی کے پاس ہی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کیا ریکوڈک معاہدے میں ہونے والی مالی ٹرانزیکشنز بین الاقوامی سطح پر ہوں گی؟ جس پر وکیل نے بتا یا کہ ریکوڈک معاہدے میں ہونے والی ٹرانزیکشنز آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوں گی، جس کے بعد وقت کی کمی کے باعث کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
ریکوڈک، ٹرانزیکشنز بین الاقوامی سطح پر ہوں گی؟ چیف جسٹس
Nov 17, 2022