ہم سب کا عظیم وطن قائداعظم کی قیادت میں حاصل کیا گیا تھا جواب ہماری اجتماعی کوتاہیوں کے نتیجے میں اندھیروں میں ڈوب گیا. بے یقینی اور نا امیدی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں. اللہ ء تعالیٰ نے خاص کرم کیا ہے تحریک انصاف کے چیئرمین کی جان بچ گئی ۔خدائے بزرگ و برتر سے التجا ہے کہ سب کے جان و مال محفوظ رہیں. قادر مطلق اس شہید کارکن کے درجات بلند کرے جس نے اپنی جان قربان کرکے عمران خان سے اپنی محبت و عقیدت کا ثبوت فراہم کیا ہے. تحریک انصاف کی باشعور قیادت نے اس کے اہل خانہ کی دلجوئی کیلئے مثبت اقدامات اٹھائے، پسماندگان کیلئے ہر قسم کے تعاون اور مالی معاونت کا بندوبست کیا ہے. پاکستان کا ہر شہری مرد وزن مائیں بہنیں, بہو بیٹیاں سب سکتے ہیں کہ پاکستان میں اپنی آزادی کے 75 ویں سال ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ایسی بلائیں کیوں نازل ہو رہی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانیوں کے مقدر میں امن اومان، استحکام و خوشحالی، چین و سکون کیوں نہیں ہے. ہم کونسی اعلی اقدار اور ثقافتی ورثہ اپنی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں. آج ہمیں انتہا پسندی, منتقم المزاجی، شقی القلبی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہو گا کہ وہ پاکستان
جو ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اس میں سے جو کوئی بھی قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتا ہے اور عوام کی امنگوں کی ترجمانی کیلئے مقبول لیڈر کا کردار ادا کرتا ہے تو اس کے قتل کیلئے سازشوں کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ یہ داستان غم و ابتلاء لیاقت علیخان کی شہادت سے شروع ہوتی ہے اور بے نظیر تک ختم نہیں ہوتی ہے اس کے درمیان ذوالفقار بھٹو کو تختہ دار کے سپرد کر دیا جاتا ہے. اب ملک دشمن اور سازشیوں نے اس قتل و غارت کا قصہ دراز کرنے کیلئے عمران خان پر طبعہ آزمائی کی ہے. اللہ کا شکر ہے کہ
کروڑوں پاکستانیوں کی دعاؤں کے نتیجے میں عمران خان محفوظ رہا ہے.پاکستان ایک انتہائی اہم محلے وقوع رکھنے والا ملک ہے چین. امریکہ اور روس کے نزدیک اس کی اہمیت صد چند ہے. پاکستان کے ابتدائی سال بہت شان اور عظمت و وقار کے ساتھ گزرے ہیں. ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے کہ مسائل و معاملات سنگین کیوں ہوتے جا رہے ہیں. قرضوں کے بوجھ تلے مملکت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے. سیاسی محاز پر مناقشات اور جنگ و جدل کا سماں ہے. فوج اور عوام کے درمیان خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم اپنے رویوں اور طرز عمل کے حوالے سے انتہائی غیر سنجیدہ قوم ہیں. ہم سب چھوٹے بڑے فلسفی اور تبصرہ نگار بن جاتے ہیں. مفتیون کی طرح فتوی بازی ہمارا شعار بن چکا ہے سوشل میڈیا جو اطلاعات کی اشاعت کا ایک معقول ذریعہ تھا ہم. نے اس کو بچوں اور غیر سنجیدہ لوگوں کا کھیل تماشا بنا دیا ہے. فیس بک, ٹوئٹ انسٹا گرام, یو ٹیوب, خبث باطن کے اظہار کے منابع بن چکے ہیں. ایسے ایسے الفاظ. اصطلاحات, دشنام, اسکیچ, کارٹون وافر مقدار میں آتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ان حالات کی سنگینی سے ہمیں قطعی طور پر مایوس نہی ہونا چاہیے. سب سے زیادہ فراخدلی کا اظہار حکومت وقت کو کرنا چاہیے. کیونکہ بنیادی طور ملک میں امن و امان اور سلامتی لانے اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے. مہزب اور ترقی یافتہ ممالک میں اشتعال اور الزامات کے باوجود حکومتی عہدوں پر متمکن افراد بڑے دل گردے کا مظاہرہ کرتے ہیں. اور سیاسی طور پر مخالفین کی عیادت کیلئے پہنچ جاتے ہیں. جس سے کشیدہ حالات کو درست کرنا کا موقعہ مل جاتا ہے. دونوں طرف کے کارکنان کو تسلی و تشفی ہو جاتی ہے کہ ہمارے قائدین بمع حکومت سنجیدہ ہیں. اور معاملات کو حل کرنے اور راستہ نکالنے میں سنجیدہ اور فہمیدہ ہیں. ہمارے ہاں 1985 کے انتخابات نے سیاست کاری کی بجائے سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا تھا. شراکت اقتدار کا لا متنائی سلسلے اپنے جوبن پر تھا جس کا ید طولی آج تک ہماری کمزور گردنوں کا طوق بنا ہوا ہے . جمہوریت خالص نہیں کمرشل ازم ہے سیاسی جماعتیں عام طور پرمال داروں، صنعتوں کاروں اور جاگیرداروں ہر بھروسا کرتی ہیں.الیکشن میں ٹکٹ انہی امیدواروں کو دیئے جاتے ہیں جو قیادت کے حکم کو
فرمان الہی سمجھیں اور جلسوں اور جلوسوں میں بھرپور مالی تعاون کرتے رہے ہوں اور انتخابی مہم پر کروڑوں روپے لگانے کی سکت رکھتے ہوں. سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہی لیتی ہیں بلکہ روسائ اور امرائ الیکشن لڑتے اور خریدتے ہیں. ایوانوں میں غریب غربا کے نمائندوں کا پہنچنا نا ممکن ہے. 1970 کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب میں عام کارکنان کو ٹکٹ جاری کئے تھے لیکن 1977 کے انتخاب میں سب ٹکٹ جاگیرداروں کی جھولی میں ڈال دیئے تھے. ملک اندھیروں اور مایوسیوں کی سرزمین بن چکا ہے ایک سپریم کورٹ ہے جہاں سے روشنی کی امید کا چاند طلوع ہو سکتا ہے. ابھی تک سٹیک ہولڈر سپریم کورٹ کی بات کو رد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. حکومت پنجاب کا تنازعہ بھی عدالت نے طے کروایا تھا. تحریک عدم اعتماد کے فیصلے میں عدالت نے اہم کردار ادا کیا تھا. اب سپریم کورٹ اپوزیشن اور حکومت کو ساتھ بٹھا سکتی ہے. آئین پاکستان کا بھی تقاضا ہے اور ملکی سلامتی کو بچانے کا راستہ بھی یہی ہے. سب اداروں کو اپنے اپنے دائروں میں محدود کرنے کا اختیار بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے. سپریم کورٹ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا انتظام و انصرام کر سکتی ہے. عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں اب عوام کی امیدوں کا مرکز سپریم کورٹ بن چکی ہے آئین عوام کی امنگوں, تمناؤں کا ترجمان ہوتا ہے. آئین میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے قانون کی نظر میں برابری, معاشرتی, معاشی اور سیاسی انصاف, اظہار خیال، عقیدہ، دین عبادت اور اجتماع کی اجازت ہو گی. سپریم کورٹ اپنے خصوصی اختیارات کے تحت جائزہ لے سکتی ہے کہ عوام الناس کی ساری تمنائیں اور آدرش، آرزوئیں کیسے تکمیل کو پہنچ سکتی ہیں!