پاکستان کے حکمران اور دیگر اعلیٰ شخصیات جب کسی غیر ملکی دورے پر جاتی ہیں تو انہیں میزبان ملک کی طرف سے تحفے تحائف بھی دئیے جاتے ہیں جنہیں قانون کے تقاضوں کے مطابق توشہ خانہ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔ تاہم قانون میں یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ اگر وہ شخصیت حاصل شدہ تحفے اپنے ذاتی استعمال میں لانا چاہے تو اس کی متعینہ قیمت سرکاری خزانے میں جمع کروا کر ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس سہولت سے ماضی میں کم و بیش تمام حکمرانوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی متعدد ممالک کے سربراہوں کی طرف سے تحفے تحائف دئیے گئے تھے۔ سعودی ولی عہد کی طرف سے انہیں قیمتی گھڑیوں کا سیٹ اور انگوٹھی دی گئی تھی ۔ عمران خان نے مبینہ طور پر یہ تخائف 20 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کر لیے اور بعدازاں زیادہ نرخوں پر فروخت کر کے نہ تو الیکشن کمشن میں فائل کیے جانے والے اپنے اثاثوں میں انہیں شامل کیا اور نہ ہی حاصل شدہ رقم سے ایف بی آر کو مطلع کیا ۔ الیکشن کمشن نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے عمران خان کے اقدام کو خلاف ضابطہ قرار دے دیا اور ان کے خلاف حکومت کو فوجداری کیس کا مقدمہ درج کروانے کا حکم بھی دے دیا۔ تاہم عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین یہ بیان دیتے رہے کہ انہوں نے مذکورہ تحائف قانون کے مطابق قیمت ادا کرکے لیے تھے لیکن وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہ کر سکے۔ اب مذکورہ تحائف خریدنے والی دبئی کی ایک کاروباری شخصیت عمر فاروق نے باقاعدہ ثبوت کے ساتھ میڈیا پر یہ انکشاف کیا ہے کہ 2019ء میں عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ان سے رابطہ کیا جس کے بعد عمران خان کی اہلیہ کی قریبی دوست فرح خان تحفے لے کر دبئی ان کے دفتر آئیں جو انہوں نے 20 لاکھ ڈالر ادا کر کے خرید لیے۔ عمر فاروق کے مطابق ان تحفوں کی اصل مالیت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالرز یعنی ایک ارب 70 کروڑ روپے تھی۔ سعودی ولی عہد سے ملنے والے تحائف کے اصل خریدار کے انکشاف کے بعد عمران خان کے لیے اپنے حق میں دفاع کرنا مشکل ہوگا۔ اس واقعہ نے جہاں عمران خان کی شخصیت کو داغ دار بنا دیا ہے وہیں اس سے پاکستان کی بھی سبکی ہوئی ۔ ضروری ہے کہ اس کی جامع تحقیقات کراکے اصل حقائق تک رسائی حاصل کی جائے اور پھر ان حقائق کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔