وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے 18 یا 19 نومبر کے بعد ہی مشاورت ہوگی۔ سپہ سالار کی تعیناتی کیلئے مسلم لیگ (ن) کا کوئی فیورٹ نام نہیں۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے مشاورت ہی نہیں ہوئی تو ڈیڈلاک کیسے ہوگا۔ انکے بقول فوج نے ابھی آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے نام نہیں بھیجا۔ اسکی طرف سے جو نام آئیں گے‘ انہی پر مشاورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حالیہ بیانات پر کارروائی ہونی چاہیے۔ وہ محض ذاتی مفاد کیلئے قومی مفاد سے کھیل رہے ہیں اور الزامات لگا کر ہمارے بین الاقوامی تعلقات خراب کررہے ہیں۔ انکے بقول پی ٹی آئی چیئرمین کا اپنے ذاتی مفادات کیلئے ملکی سالمیت اور وقار سے کھیلنا جرم ہے۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی عمران خان کے حالیہ بیانات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی سیاست شروع سے آج تک ایک تعیناتی کے گرد گھوم رہی ہے اور انہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تعیناتی پر غیرضروری سیاست کی جارہی ہے۔ ہمارے کسی اتحادی یا کسی کو بھی جلسوں میں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور سب چیزوں کو آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔
اصولی طور پر تو دیگر ریاستی اداروں کے سربراہوں اور دوسری اہم تعیناتیوں کی طرح افواج پاکستان کے سربراہ کا تقرر بھی آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق روٹین کی کارروائی ہونی چاہیے اور اس تقرر کے معاملہ پر کسی بھی جانب سے انگلی نہیں اٹھنی چاہیے تاہم بدقسمتی سے ماضی میں آئین تک کو روندا جاتا رہا ہے اور ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹائی جاتی رہی ہے اس لئے ریاستی طاقت کے حوالے سے سپہ سالار کی اتھارٹی اہمیت اختیار کر گئی اور ملک کے تحفظ و دفاع کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات بھی اس منصب کے اردگرد گھومتے نظر آتے رہے۔ اسی تناظر میں ہماری سیاسی قیادتوں کے بارے میں یہ تاثر راسخ ہوا کہ وہ خود ہی ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنا کندھا فراہم کرکے مسندِ اقتدار پر بٹھاتے اور انکے اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہی تصور ہماری عدلیہ کے ساتھ بھی منسوب ہوا جس نے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی اصطلاح نکال کر ماورائے آئین اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے اور انہیں جائز قرار دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ تاہم یہ صورتحال جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے دوران 2007ء تک ہی برقرار رہ پائی اور جہاں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جنرل مشرف کے معطل کردہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کیخلاف دائر ریفرنس مسترد کرتے ہوئے انکی بحالی کے احکام صادر کئے اور نظریۂ ضرورت سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کیا وہیں جنرل مشرف کے بعد تعینات ہونیوالے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے بھی فوج کے ادارے کے سیاسی معاملات سے لاتعلق ہونے اور عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے معاملہ میں آئین و قانون کی پاسداری کرنے کا عہد کیا اور سول اداروں میں ڈیپوٹیشن پر گئے ہوئے فوجی افسران کو بھی واپس بلوا کر انہیں انکی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر تعینات کر دیا۔
یہ ملک میں جمہوریت کی بقاء و استحکام کیلئے ایک مثالی صورتحال تھی جبکہ اس سے قبل اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدین سمیت اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے یہ عہد کر چکے تھے کہ آئندہ وہ کسی کی بھی حکومت کے ماورائے آئین اقدام کے تحت خاتمہ کیلئے اپنے کندھے فراہم نہیں کرینگے۔ اس حوالے سے بلاجھجک یہ کہا جا سکتا ہے کہ سال دوہزار کی پہلی اور دوسری دہائی میں قومی سیاسی‘ عسکری اور عدالتی قیادتوں کی سسٹم کے حوالے سے مثبت سوچ نے جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر ڈالا جو حائل ہونیوالی متعدد رکاوٹوں کے باوجود 2008ء سے اب تک ٹریک پر ہی چل رہی ہے۔ تاہم عمران خان نے 2011ء سے اپنی افراتفری والی جارحانہ سیاست کو اپنی مقبولیت کی بنیاد بنایا اور آئین کے تحت چلنے والے سسٹم کے علاوہ ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس سیاست میں بلیم گیم کو فروغ دیکر 2014ء میں اس وقت کی حکومت کیخلاف دھرنے کا آغاز کیا اور 126 دن تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے دوران وہ تواتر کے ساتھ ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کا عندیہ دیتے رہے تاہم آئین و قانون پر کاربند عسکری قیادت کی جانب سے انکی کسی ترغیب و تحریص کو خاطر میں نہ لایا گیا۔ وہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے جہاں اپنے مخالف سیاسی قائدین کو مسلسل رگڑا دیئے رکھنے کی پالیسی اختیار کی وہیں انہوں نے حکومتی اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحہ پر ہونے کا ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کر دیا جس سے انکی مخالف جماعتوں کو عسکری ادارے کے معاملات پر سوال اٹھانے کا موقع ملا چنانچہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ایک غیررسمی نشست کا اہتمام کرکے انہیں دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا کہ عساکر پاکستان کا کسی سول سیاسی معاملے سے کوئی سروکار نہیں ہے اس لئے سیاسی قیادتیں اپنے معاملات و تنازعات مجاز فورم پر خود ہی طے کریں۔ اسکے باوجود عمران خان عسکری قیادتوں کے حکومت کے ساتھ ہونے کا تاثر دے کر اپنے مخالفین کو اپنی حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں نے باہم متحد ہو کر وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی تو عمران خان اس تحریک کو ناکام بنانے کیلئے فوجی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے جس پر عسکری قیادت کی جانب سے انہیں دوٹوک الفاظ میں باور کرایا گیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ صورتحال ہمارے لئے کسی المیے سے کم نہیں کہ عسکری قیادتوں نے تو ماضی کے معاملات کے ازالہ کیلئے عساکر پاکستان کو صرف اپنی آئینی حدود میں رہنے اور محض اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کا پابند کرلیا ہے۔ مگر عمران خان کو فوج کا یہ آئینی کردار قبول نہیں اور انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد عسکری قیادت سے اپنی غیرجانبداری ترک کرنے اور انکے ساتھ کھڑا ہونے کے تقاضے شروع کر دیئے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے آرمی چیف کے تقرر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ وہ وزیراعظم کو انکی مرضی کے آرمی چیف کا تقرر نہیں کرنے دینگے جبکہ آئین کی دفعہ 243 شق تین کے تحت آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی عمل میں آنا ہے جس کیلئے وزیراعظم کی جانب سے عندیہ بھی دیا جا چکا ہے کہ سینیارٹی لسٹ میں جو سب سے سینئر ہوگا‘ اسی کا بطور آرمی چیف تقرر عمل میں آئیگا۔ وزیراعظم کے اس دوٹوک اعلان کے بعد تو آرمی چیف کے تقرر پر کسی اعتراض اور محض چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی تناظر میں عمران خان کی حالیہ بیان بازی کو افسوسناک قرار دیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے بھی یہی تقاضا کیا ہے کہ آرمی چیف کا تقرر متنازعہ نہ بنایا جائے۔
اس وقت آرمی چیف کے تقرر کا جو طریقہ آئین کے تقاضوں کے تحت حکومت اختیار کر رہی ہے‘ ایکس سروس مین سوسائٹی کے سرپرست اعلیٰ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے بھی اسی پر صاد کیا ہے مگر عمران خان اس تقرر پر سیاست چمکانے پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز یہ بھی الزام لگا دیا کہ نوازشریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر مجھے نااہل کرائیں گے جبکہ کسی کی نااہلی کے معاملہ سے آرمی چیف کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ اب جبکہ آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ تقریباً طے ہو چکا ہے‘ عمران خان کو اس پر بلیم گیم کا سلسلہ ترک کر دینا چاہیے اور اس حوالے سے اپنے اتحادی وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ضرور مشاورت کرلینی چاہیے‘ کہیں کل کو انہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔