ان دنوں وطن عزیز کے تیزی سے بدلتے سیاسی اور اقتصادی حالات میں آنیوالی ممکنہ تبدیلیوں کا انتہائی قریب سے جائزہ لے رہا ہوں۔ بڑھتی مخدوش سیاسی صورتحال کا ملک کے اندر رہ کر جس طرح جائزہ لیا جا سکتا ہے‘ ملک سے باہر بیٹھ کر حالات کا اس طرح مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ سیاسی‘ سماجی اور مذہبی شخصیات سے کسی بھی حکومت وقت کے انتقام کی روایات بھی ہمارے ہاں بہت پرانی ہیں۔ صحافیوں پر تشدد اور انکے قتل کے واقعات میں بھی اضافہ جاری و ساری ہے تاہم بزرگ سیاسی شخصیات کو زدوکوب کرنے اور ان سے غیرانسانی سلوک روا رکھنے کا جو سلسلہ اب چل نکلا ہے‘ ماضی میں اسکی کم کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ پی ٹی آئی کا جاری لانگ مارچ‘ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ آنیوالے چند ہفتوں میں بدلتی سیاسی صورتحال اور ہمارے سیاسی نظام سے پیدا ہونیوالی جگ ہنسائی نے ایک بار پھر کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ اپنے حالیہ مختصر دورہ کے دوران میرے وہ صحافی اور کالم نگار دوست جنہوں نے پیشۂ صحافت کو ایمان کا درجہ دیتے ہوئے کلمۂ حق کہنے کا حلف اٹھایا‘ بعض معاملات میں مجبور‘ خوفزدہ اور پریشان نظر آئے ہیں۔ بیشتر دوستوں کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ سچ کہنا‘ سچ لکھنا اور سچ کا درس دینا عملی صحافت میں آنے والوں کیلئے اب آسان نہیں رہا۔ سچائی کی قیمت جب موت ٹھہر جائے تو ایسے حالات میں مرنے والوں کے بچوں‘ والدین‘ عزیز و اقارب اور دوستوں کے غم و حالات کی ذمہ داری کون لے گا؟ ارشد شریف مرحوم اور مرحومہ صدف نعیم سمیت دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو جانے والے کئی ینگ جرنلسٹس کا ذکر کیا گیا۔ سوال ایک ہی تھا کہ اب تک شہید کئے جانیوالے متعدد صحافیوں کا آخر جرم کیا تھا؟ جرم اگر سچ اور حق کو بے نقاب کرنا تھا تو ان کا ’’صحافی‘‘ نام کیوں رکھا گیا۔ دنیا سے یوں رخصت ہونیوالے ان صحافیوں کی خدمات تو بلاشبہ زندہ رہیں گی مگر انکی سچائی کے قتل کا جواب کون دیگا؟ یہ وہ بنیادی سوال تھا جس کا مغموم دوست جواب دینے سے معذور تھے۔
شدت سے بڑھتے ایسے افسوسناک واقعات اور ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے بارے میں جاننے کیلئے سابق وفاقی وزیر، پاکستان مسلم لیگ (ض) کے صدر اور پی ٹی آئی اور اداروں کو ایک پیج پر لانے کیلئے پل کا کردار ادا کرنیوالے اعجازالحق سے ایک طویل نشست بھی ہوئی جس میں انہوں نے متعدد سیاسی امور سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے ایک نجی دورہ کے سلسلہ میں چند روز قبل ہی وہ لندن گئے مگر ملک کے مخدوش سیاسی حالات کے پیش نظر چند ہی دنوں بعد انہیں واپس آنا پڑا۔ میرے اس سوال پر کہ دورہ مختصر کرتے ہوئے آپ خود ہی آگئے یا کسی کے کہنے پر فوراً آپ کو وطن واپس لوٹنا پڑا؟ اعجازالحق نے مسکراتے ہوئے کہا‘ آپکے ہر سوال کا جواب دینے سے قبل مجھے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ سوال کا مفہوم کیا ہے ۔ ’’ولایت نامہ‘‘ اب وطن عزیز کے انتہائی بااختیار اور اہم ترین حلقوں میں ہی نہیں پڑھا جاتا اوورسیز پاکستانیوں میں بھی اچھی خاصی مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ آپکے سوال میں ’’کسی کے کہنے‘‘ کے الفاظ کا ادراک مجھے بخوبی ہو گیا ہے۔ لندن کا دورہ مختصر ’’کسی کے کہنے پر‘‘ نہیں کیا بلکہ ملکی سیاست کے آناًفاناً بدلتے حالات دیکھتے ہوئے فوری یہاں پہنچا ہوں۔ ملکی سالمیت و استحکام کیلئے کوئی بھی قربانی دینا میری سیاسی زندگی کا بنیادی مشن ہے۔ تحریک انصاف اور بعض قومی اداروں کے مابین بڑھتے فاصلوں کو کم کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا میری اولین ترجیح ہے۔
میں اس کوشش میں ہوں کہ پی ٹی آئی اور قومی ادارے ایک پیج پر آکر جمہوریت کو دوام بخشیں۔ عمران خان صاحب کا شکر یہ کہ ملک میں امن اور جمہوری اقدار کے استحکام کیلئے کی گئی میری کاوشوں پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ ان سے اب تک متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں‘ لندن سے فوری واپسی کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتی خلیج کو ہر ممکن طریقے سے روکا جاسکے۔ خان صاحب پر وزیرآباد میں جس روز قاتلانہ حملہ ہوا‘ لاہور میں ہماری اس سے قبل ایک طویل نشست ہوئی جہاں انہیں میں نے وزیرآباد کیلئے الوداع کیا مگر افسوس! وزیرآباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا جو ایک بزدلانہ اقدام ہے۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر کے اندراج میں جس طرح تاخیری حربے استعمال کئے گئے قابل افسوس ہیں۔ اس حادثے کا بینیفشری کون ہو سکتا ہے؟ میں نے سوال کیا۔ میرے نزدیک اس واقعہ کی سب سے بڑی بینیفشری حکومت وقت ہے جو تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھانا چاہتی ہے اور یہی وہ منفی طرز سیاست ہے جس سے وطن دشمن عناصر بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ملک سیاسی‘ اقتصادی اور معاشی طور پر شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ مشکلات بڑھتی جارہی ہیں‘ اکانومی‘ ایکسپورٹ‘ ریزروز اور اوپر سے سیاسی بحران سے ملک تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے جس کا فوری حل ناگزیر ہے۔ سیاسی بحران کے فوری حل کیلئے آپکی کوئی حکمت عملی؟ جی! اس سلسلہ میں میں نے 2 تجاویز سامنے رکھی ہیں۔ پہلی تجویز کہ حکومت 23 نومبر 2023ء کے بجائے اگست 2023ء میں الیکشن کا اعلان کرکے عبوری حکومت قائم کر دے۔ ٹیکنو کریٹ پر مبنی یہ حکومت الیکشن کمیشن‘ اوورسیز ووٹنگ مشین اور دیگر معاملات طے کرلے‘ یوں بھی عمران خان صاحب کی ڈیمانڈ کوئی اتنی ناقابل عمل نہیں جس کا حل موجود نہ ہو۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ انتخابات کو تین ماہ پیچھے کرکے عید پر عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جائے‘ اس طرح خان صاحب اور حکومت کے درمیان سیاسی کشمکش میں کمی بھی واقع ہو جائیگی اور ملک کا سیاسی مورال بھی بلند ہو جائیگا۔ میرے خیال میں موجودہ حالات کو ڈی فیوز کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ اعجازالحق نے اپنی مخصوص مسکراہٹ میں جواب دیا۔
سیاسی بحران پر اعجازالحق کی تجاویز
Nov 17, 2022