ہمیں حکم ہے کہ ظلم وستم کی خونچکاں کہانیاں بھی رومانوی اندازمیں بیان کیا کریں۔اب کیا کیاجائے، اسکے بغیر لطف بھی نہیں آتا۔ ہم گزشتہ چنددہائیوں میں لاشوں پر”سیلفیوں کا جشن “منانے والی قوم بن گئے ہیں۔ قومی سطح کے حساس معاملات کو بھی ہم فکاہات میں اڑا دیتے ہیں۔اس قابل ِرشک قومی مزاج کی پیروی تو اب عالمی سطح پر ہونی چاہیے۔معروف ماہرنفسیات سگمنڈفرائیڈ نے انسانی دماغ میں” لاشعور“ کا تصور دیا تھا۔اس کے شاگرد ڑونگ نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے ”اجتماعی لاشعور“کی بات کی۔اس کے مطابق جس طرح کسی انسان کاانفرادی لاشعور ہوتا ہے،دنیاکی مختلف قوموں کے لاشعور میں بھی کچھ باتیں مشترکہ ہوتی ہیں۔ان شعورو لاشعور کی بوجھل اور دقیق باتوں پربحث تو ماہرینِ نفسیات ہی کرسکتے ہیں۔ہم توایک بات جانتے ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں میں ہمیں فکری طورپر، بڑے اہتمام کے ساتھ دیوالیہ کیاگیاہے۔ اب ہماری حیثیت سٹیج ڈرامے کی جگت باز قوم کی ہے۔سنجیدہ قومی مسائل پربھی مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لینا، ہمارے اجتماعی مزاج کاحصہ ہے۔ویسے من حیث القوم ہم بڑے بے رحم اور بے حس واقع ہوئے ہیں۔پاکستانی عوام نے کبھی ٹریفک حادثات،انصاف کی عدم دستیابی، طبقاتی تقسیم،مختلف نظام ہائے تعلیم، جہیزکی لعنت ،ماحولیاتی آلودگی اور اس جیسے بہت سے دیگرمسائل پرکبھی جلسہ کیا، نہ جلوس ہی نکالا۔کسی امام مسجدنے جمعے کی تقریر میں عوامی شعور کو بلند کرنے کے لیے سماجی مسائل کواجاگرنہیں کیا۔کسی مذہبی جماعت نے اس پردھرنا نہیں دیا۔چندروزپہلے لاہور کی ایک معروف ہاﺅسنگ سوسائٹی میں کم سن نوجوان کی غیرمحتاط ڈرائیونگ سے ایک ہی گھرکے پانچ افراد جاں بحق ہونے کے اندوہ ناک واقعے سے ملکی فضاسوگوار ہے۔اس طرح کے واقعات آئے روزہوتے رہتے ہیں لیکن سول سوسائٹی نجانے اس وقت کہاں ہوتی ہے۔بات ٹریفک حادثات کی ہورہی ہے تو یہاں مجھے اردو نظم کے عظیم شاعر مجیدامجدکی ایک نظم ”ایکسیڈنٹ “ بھی پیش کرنی ہے:
مجھ سے روز یہی کہتا ہے پکی سڑک پر وہ کالا سا داغ
جو کچھ دن پہلے سرخ لہو کا تھا اک چھینٹا چکنا گیلا چمکیلا چمکیلا
مٹی اس پہ گری اور میلی سی اک پپڑی اس پر سے اتری
اور پھر سیندوری سا اک خاکہ ابھرا
جو اب پکی سڑک پر کالا سا دھبہ ہے
پسی ہوئی بجری میں جذب اور جامد ان مٹ
مجھ سے روز یہی کہتا ہے پکی سڑک پر مسلا ہوا وہ داغ لہو کا
میں نے تو پہلی بار اس دن
اپنی رنگ برنگی قاشوں والی گیند کے پیچھے
یوں ہی ذر ا اک جست بھری تھی
ابھی تو میرا روغن بھی کچاتھا
کس نے انڈیل دیا یوں مجھ کو اس مٹی پر
اوں اوں میں نہیں مٹتا میں تو ہوں اب بھی ہوں
میں یہ سن کر ڈر جاتا ہوں
کالی بجری کے روغن میں جینے والے
اس معصوم لہو کی کون سنے گا
ممتا بک بھی چکی ہے چند ٹکوں میں
قانون آنکھیں میچے ہوئے ہے
قاتل پہیے بے پہرا ہیں
یہ نظم سڑک پر ایک بچے کے ”قتل“کے سانحے کے ردعمل میں لکھی گئی۔ایک بچہ کھیلتے ہوئے اپنی گینداٹھانے کے لیے سڑک پر آیا اور قاتل گاڑی کے پہیوں کے نیچے آکرکچلا گیا۔ شاعر کواس کے سرخ لہو کا دھبا سڑک پرنظرآیا،جو وقت کے ساتھ ساتھ سیاہی مائل ہوکر سڑک میں رنگ میں جذب ہوگیا،اب اسے سیاہ رنگ کی سڑک پرچاروں طرف اسی لہو کی رنگت دکھائی دیتی ہے۔”ممتا بک بھی چکی ہے چندٹکوں میں“والی بات سے اتفاق نہیں کیاجاسکتا۔شاید کسی مجبور عورت کی غربت اس کا باعث بن گئی ہو۔کیسے کیسے غیرمحتاط ہاتھوں میں گاڑیوں کے سٹیرنگ آجاتے ہیں۔
عالمی ادار ہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک کے حادثات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔نیشنل روڈ سیفٹی کے سروے کے مطابق آنے والے چندسالوں میں ٹریفک کے حادثات میں 77 فی صد تک اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی اسباب میں ڈرائیورز حضرات کی جانب سے ٹریفک سگنل کا توڑنا، سیٹ بیلٹ کے استعمال میں لاپروائی و غفلت، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور تعمیل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، گاڑی کی ناقص حالت کی وجہ سے ٹائر کا پنکچر ہوناشامل ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں اکثر جگہوں پر زیبرا کراسنگ، پل یا فٹ پاتھ موجود ہی نہیں ہے۔ پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔پاکستان میں کم عمر نوجوانوں کے موٹرسائیکل اورکار چلانے کے رجحان میں اضافہ ہواہے۔ہمارے ملک میں گذشتہ تیس سالوں کے دوران میں درآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعدادمیں شدید اضافہ ہواہے۔ مقامی سطح پربھی گاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔یہ گاڑیاں ہمسایہ ملک میں بنائی جانے والی گاڑیوں سے مہنگی ہونے کے باوجود بہت غیرمعیاری میٹریل سے بنائی جاتی ہیں۔ حادثے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے ،حادثے کے بچاﺅ کے لیے ائیربیگ کی موجودگی کاتوسوچابھی نہیں جاسکتا۔ملکی قوانین ایسے لوگوں نے لیے محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں۔ٹریفک پولیس کی تعداد کم ہے۔معاشرتی طور ایک شہری کے تحفظ کی اس نظام میں بہت کم گنجائش نظرآتی ہے۔چندروزپہلے مجھے ساہیوال سے معروف سماجی کارکن اور صحافی امتیازاحمدبٹ کا برقی پیغام ملا،انھوں نے اپنے شہرکے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔مفادات کے ”انڈرپاس “ اور ”رنگ روڈ “ بنانے والوں کے لیے یہ پیغام ایک تازیانے سے کم نہیں۔امتیازاحمدبٹ لکھتے ہیں:
افتخارشفیع صاحب!
ساہیوال میں گذشتہ سات ماہ سے سڑکوں کو اکھاڑ کر خندقیں کھودی گئی ہیں ،شہرکی تعمیرنو کا یہ کام انتہائی سست روی سے جاری ہے۔ٹریفک حادثات معمول بن گئے ہیں۔ترقی کا یہ سفر شاندار ہے لیکن اصل مسئلے کی طرف کسی کا خیال ہی نہیں جاتا۔لاہور ملتان جی ٹی روڈ پر ساہیوال بائی پاس کے قریب ایک یونیورسٹی اور چند کالجز ہیں۔یہاں ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کی نئی عمارت ، گورنمنٹ ملازمین کی ہاﺅسنگ سکیم اور دیگر بہت سے منصوبے جاری ہیں لیکن بائی پاس کے لنک روڈ پرمتواترحادثات ہورہے ہیں۔اس جگہ متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک خونیں حادثے میں یونیورسٹی کے تین طلبہ احمدشہروز،فہیم بلوچ اورشیخ ولیدجاں بحق ہوگئے۔دوہفتے قبل ایک اور طالب علم انس تنویر جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔شہرکے اندر نیوفیصل آباد روڈ پر چندماہ قبل ایک قاتل بس نے دوسگے بھائیوں کوکچل دیا تھا۔شہرکے حاکم نے اس ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسوں کے شہرمیں داخلے پرپابندی اور اس کے ڈرائیوروں کے دماغی چیک اپ کا حکم بھی دیا تھا۔اس پابندی پرکچھ عرصہ توعمل ہوتا رہا لیکن اب وہی بسیں اورٹرک ”ڈینوساروں “کی طرح شہرمیں دندتاتے پھرتے ہیں۔“ اس عوامی مسئلے پر نوحہ گری ہی کی جاسکتی ہے۔ ارباب بست وکشاد سے التماس ہے کہ کوئی ایسا فنڈ تو ضرور جاری ہونا چاہیے جس سے ماﺅں کے بیٹوں کی زندگی کوبچایا جاسکے۔بس مفادات سے پاک ایک انڈر پاس کاسوال ہے۔