”فلسطین۔امت کی شکایت کرنا“

درد ناک تصویر اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے الفاظ۔ معصوم بچوں پھولوں کے جسد خاکی کو چومتا۔ ہاتھ لگاتا بزرگ فلسطینی زارو قطار روتا ہوا اپنے شہید پوتے۔ پوتیوں کو کہہ رہا تھا کہ ”نبی رحمت “ سے ملاقات ہو تو امت کی شکایت کرنا۔ کہنا کہ ہمارے ٹکڑے ہو رہے تھے اور امت خاموش تھی۔ کہاں کی امت۔ ایک مردہ۔ دنیا کی تمام تر گندگیوں میں لتھڑی ہوئے مردہ اجسام کو امت کہنا۔ امت لفظ کی توہین ہے۔ پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پوری دنیا کے اکثریتی باشندے ”فلسطینی عوام“ کے ساتھ ہیں جبکہ ”اکثریتی لیڈرز“ اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ موت کی وادی میں بلکتے بوڑھوں۔ عورتوں۔ ماں باپ کے جسد خاکی کو تلاش کرتے بچے۔ ہاتھوں سے اپنے سروں کو پیٹنے والے نوجوان۔ ایک منظر بھی مسلم ممالک کے م±ردہ ضمیر کو زندہ نہ کر سکا۔ نہ ہمارے آنسو کام آئے نہ بدترین منحوس دشمنوں کا مقابلہ کرنے والوں کی فریادیں۔داد رسی پا سکی ہیں۔ مظاہرے۔ امداد۔دلکش الفاظ سے مرسج الفاظ سے لبریز خلوص سے خالی تقاریر کچھ بھی مظلوم۔ نہتے ”غزہ“ کے زندہ۔ شہید افراد کا مداوا کرنے سے قاصر ہے۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ا±ن کو ہماری اخلاقی نہیں عملی مدد۔ بھرپور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ ”کشمیر“ پر جابرانہ قبضہ کی طرح ”غزہ“ پر مسلط بر بریت کو عالمی برادری پرائی چیزیں سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہے یہ غفلت آنے والے کل میں پوری دنیا کے لیے نہ حل ہونے والے مسائل میں بدل جائے گی الفاظ یاد رکھ لیں۔ نوشتہ دیوار ہے ہمسائے کے گھر میں لگنے والی آگ دیواریں توڑ کر محفوظ گھر کو ہی لپیٹ میں لے لیتی ہے یہ وہ آگ ہوتی ہے جو شر پسند ہمسائے خود بھڑکاتے ہیں تو شر کی تو کوئی سرحد ہوتی ہے نہ حد۔ 
یوکرائن پر رونے والے ”غزہ“ میں اسرائیلی بمباری پر گونگے بہرے ہوئے۔ ہسپانوی وزیر برائے سماجی امور” آئیون بیلارے “۔ یورپ۔ امریکہ میں روزانہ لاکھوں کی تعداد مظاہرہ کر رہی ہے دوسری طرف اِنھی ممالک کی حکومتیں” ناجائز بچے“ کو ناجائز امداد بجھوا رہی ہیں۔ عوام ”غزہ“ کے ساتھ ہیں جبکہ حکومتیں غاصب قصائی کے ساتھ۔ دنیا کے سب سے زیادہ وسائل کے مالک ”مسلمان“ سب سے زیادہ آبادی کے حامل ممالک ”مسلمان“ فوجی قوت بھی بڑے سے بڑے دشمن سے لڑنے کے لیے کافی۔اگر متحد ہو جائیں تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں۔ہتھیاروں کے ناکافی ہونے کے عذر پر آجائیں تو اتنا لکھناکافی ہے کہ صرف ”ایمان کی پختگی“ سمندروں کو پھاڑ کر رکھ دے۔ ہم انسان نہیں۔ حیوان نما حیات بن چکے ہیں اردگرد رونما ہوتے دلخراش واقعات۔ حادثات دیکھ کر بھی یہی سمجھے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں جبکہ ایسا نہیں دانستہ لاپرواہی۔ قصداً خاموشی قطعی طور پر معاف نہیں ہوگی۔ ہم تب تک محفوظ ہیں جب تک اصل” معبود اعلیٰ۔ حقیقی مالک“ کی منشاءہے چاہے دنیا بھر کی طاقتیں لاکھ مرتبہ کوشش کر لیں ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا کیونکہ وہ اپنے اصل ”معبود اعلیٰ۔اللہ رحمان۔ رحیم۔کریم“ کے تابع فرمان ہے۔ فرمانبرداری سیکھنی ہو تو پرندوں۔ چرندوں سے سیکھو ایک ساعت بھی حکم عدولی نہیں کرتے اور انسان جس کو افضل البشر قرار دیا گیا۔ سجدے کا حکم ملا تو ہزاروں سال سے مصروف عبادت” ابلیس ” کا انکار ا±س کو راندہ درگاہ بنا گیا۔ پھر دنیا کی تمام انگنت نعمتیں انسان کے آرام۔ لذت کو پورا کرنے واسطے پیدا فرمائیں۔ لامحدود خزانوں کی چابیاں انسان کے ہاتھ میں بیٹھے بٹھائے تھما دی گئیں۔ ہواو¿ں۔ بادلوں کو ا±س کے لیے مسخر کر دیا گیا۔ سمندرمیں چلنے والی کشتیاں اور فضاو¿ں میں ا±ڑنے والے جہاز۔ کیا سب کی تیراکی۔پرواز صرف ایک دن ختم ہونے والے خاکی انسان کے ہاتھوں میں ہے َ؟ جی نہیں۔ وہ تب تک محو پرواز۔ محفوظ تیراک رہیں گے جب تک میرے مہربان ”رب کریم“ کی مہربانی شامل حال رے گی۔ 
اے میرے پیارے۔ بے انتہا رحم فرمانے والے ”اللہ۔ رحمان۔رحیم۔ کریم“۔ اے میرے بے حد محبت فرمانے والے ”اللہ کریم“ ا±س بوڑھے فلسطینی کی اپنے شہید پوتے۔ پوتیوں کو وصیت ضرور اپنے پیارے ”حبیب وجہ تخلیق کائنات محمد عربی رسول مقبول “ تک پہنچا دینا ا±ن کی ملاقات ضرور کروا دینا اور میری یہ فریاد بھی میرے نبی رحمت ﷺ کو پہنچا دینا کہ میرے ہاتھ میں صرف قلم ہے جو مظلوم لوگوں کے نوحے لکھنے پر قادر ہے۔ میں نے جس حد تک جبر۔ دباو¿، ظلم کے ماحول میں رہ کر لکھا تھا ہے اور لکھوں گی وہ سب اپنی ”بارگاہِ عزت۔ کرم“ میں ضرور قبول فرما لیں۔ اے دنیاوی عارضی سب حاکموں کے اصل حاکم میرے ”اللہ غفور الرحیم” مجھ سے اور میری اولاد جیسے بے بس۔ بے اختیار لوگوں سے کوئی تعرض نہ فرمانا نہ عارضی دنیا میں اور ابدی آرام گاہ میں۔ میرا سب کچھ میری اولاد کا سب کچھ ہمیشہ کیلئے تا ”جنت الفردوس“ معاف فرما دے۔ ”یا رب العزت“ بس عزت عطا فرما۔ ”یا مالک الم±لک“ زندگی کی خوشیوں کے کِسی بھی رنگ سے محروم نہ فرمانا۔ سب رنگ آسانیوں۔ نرمی۔ محبت۔ کرم کی انتہا سے عطا فرما۔ کوئی کمی نہ رہے نہ عطا کی نہ بخشش کی۔آمین۔
کربلا کے مظالم کو بھی شرمندہ کرتے مناظر۔ ”42دن“ سے پانی۔ ایندھن۔ راشن بند۔ ”فاطمہ“ بچوں کو نظمیں سناتی ہے ا±ن کے ساتھ کھیلتی ہے۔ خون۔ بارود۔آگ میں گرتی عمارتوں کے پیچ رہنے والے بچوں کے دل غمزدہ۔ چہروں پر خوف تھا ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا تھا ایسے میں ایک دلیر عورت ”فاطمہ“ منفرد انداز سے بچوں میں چھائے دہشت کے بد اثرات ختم کرنے کیلئے بچوں کو اکٹھا کر کے ا±ن کے ساتھ کھیلتی اور ا±ن کو نظمیں س±ناتی ہے۔ اب تو الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے اتنی دہشت گردی کہ ہسپتالوں کو قبرستانوں میں بدل ڈالا ہے اور بااختیار لوگ بے حس اتنے کہ شرم سے صدیوں کی جمی ہوئی ”برف“ پگھل جائے۔ میسر اعداد و شمار کے مطابق شہادتوں کی تعداد ”11ہزار“ سے بڑھ چکی ہے جبکہ اصل گراف تو صرف ”اصل مالک“ ہی جانتا ہے۔ نوزائیدہ۔ نو عمر بچوں کی تعداد زیادہ ہے اسوقت منحوس ٹینک۔ منحوس وجود ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں کونسے جنگی قوانین ؟ کونسے انسانی حقوق؟کونسی اخلاقی روایات پانی بند تھا تو ا±وپر والے کی اپنی مخلوق سے محبت۔ رحم کا عالم دیکھیں کہ بارش برسا دی۔ بچے۔ جوان بارش میں بھیگتے۔ م±سکراتے ہوئے پانی بوتلوں میں بھر رہے تھے۔ عمارتیں ڈھیر۔ شہداءکے اجسام بکھرئے ہوئے ہر طرف خون۔ ہتھیاروں کی برسات میں بھی ”اہل غزہ“ ”اللہ رحمان۔ رحیم۔ کریم“ کا شکر ادا کر رہے ہیں ایسا حوصلہ۔ اتنی ہمت۔ کمال برداشت کہ پتھربھی رو پڑے ہیں پر افسوس نہیں آنسو ٹپکا تو ا±ن ظالم انسانوں کا جو حکمران ہیں لیڈرز ہیں۔ اشرافیہ ہے پاکستان ہمیشہ ”غزہ“ کے ساتھ تھا اور ہے ہمارے دل ا±ن کے لیے دھڑکتے تھے اور دھڑکتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن