اگلا وزیر اعظم کون ؟

Nov 17, 2023

فرحت عباس شاہ

 دنیا یونی پولر ورلڈ آرڈر سے بائی پولر ورلڈ آرڈر میں داخل ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے روس کی حیثیت ختم کر کے خود کو واحد سپر پاور کے طور پر منوایا تھا۔ روس امریکہ کی یہ سرد جنگ بہت عرصہ جاری رہی اور بالآخر روس کو افغانستان میں گھیر کر پاکستان اور کیپیٹلزم کی مدد سے شکست دی گئی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پچھلا ورلڈ رڈر بننے میں پاکستان کا اہم کردار تھا۔ یہ بھی کوئی اتفاقاً نہیں ہوا کہ جس دن پاکستانی وزیر اعظم ماسکو میں صدر پوٹن سے مل رہا تھا یوکرین رشیا وار شروع ہوئی۔ پھر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کے بیانات میں فرق آگیا۔ ہمیں بتانا پڑا کہ ہم روس کے ساتھ ہیں یا امریکہ کے۔ سائفر کی فلم چلی پی ٹی آئی لیڈر نے کھل کھلا کے امریکہ کے لتے لیے۔ پاکستان کے حالات دگرگوں ہونے لگے اور معاشی پھندا تنگ ہوتا گیا۔ ہر طرف شور مچ گیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا کر رہا ہے ، کرچکا ہے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی دانشور سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی بڑی تین طاقتوں میں سے روس کا ڈنک نکال کے چائینہ کو کمزور کرنا ضروری ہے جبکہ کچھ غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین رشیا وار میں اس دفعہ اصل مدمقابل روس نہیں چین ہے۔ 
 امریکہ کو چاہئیے تھا کہ روس سے دشمنی کی بجائے دوستی کرتا اور ٹرمپ حکومت شاید یہی کر رہی تھی لیکن بائیڈن حکومت نے گھر بیٹھے بٹھائے روس کو دشمن بنالیا۔ اس کا نقصان ایک تو یہ ہوا کہ یورپی ممالک کی ساری توجہ اس طرف مبذول ہوگئی اور دوسرا پورا یورپ جنگ کے اقتصادی مضمرات کا شکار ہوگیا جبکہ دوسری جانب چین نے امریکہ کو نہ صرف یوکرین میں الجھا کر رکھنے میں روس کی مدد کی بلکہ تائیوان میں امریکہ کو پھنسانے کی کوشش کی۔ لیکن امریکہ اسرائیل حماس وار میں خود کو گرنے سے نہیں بچا سکا۔ اب اس تنازعے میں رشیا کی پوزیشن اس وقت امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ روس یوکرین وار میں غیر جانبدار رہ کر روس سے تیل خریدنے اور حماس اسرائیل جنگ میں امریکی برگر خریدنے کی دوغلی بھارتی پالیسی نے امریکہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اب اس کے پاس پاکستان کو ہرحال میں اپنے ساتھ رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ پاکستان چائینہ فرینڈشپ کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گویا پاکستان اس وقت امریکہ ، چین ، بھارت ، اسرائیل اور روس سب کے نشانے پر ہے۔ پاکستان کا امریکہ اور چین کے درمیان ہونے والی اس رسہ کشی سے بچ نکلنا بہت مشکل لگ رہا ہے۔ میرے ذاتی تجزیے کے مطابق پاکستان میں امریکہ اور چین کے درمیان کولڈ وار کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایک طرف امریکہ ، بھارت اور اسرائیل سمیت مغربی ملک ہیں اور دوسری طرف چائینہ۔ اگر امریکہ اور بھارت مل کے پاکستان سے سی پیک کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے چین کو بہت بڑا جھٹکا لگے گا اور اگر چین پاکستان سے امریکہ کو نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر یونی پولر ورلڈ آرڈر قائم ہوجاجائے گا جس میں سپر پاور کا درجہ چین کو حاصل ہوگا۔ پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی ، افواج پاکستان پر حملے اور چینی باشندوں کے لیے خطرات کا بڑھنا پاکستان میں کھیل کے شروع ہوجانے کی نشانیاں ہیں۔
 پاکستان کے داخلی سیاسی حالات بھی پوری طرح بے یقینی اور گومگو کی صورتحال کا شکار ہیں۔
 ” وزیراعظم پاکستان “ میاں محمد نوازشریف پاکستان میں موجود ہیں۔ دروغ بر گردن راوی سنا ہے خاندان میں اور پارٹی میں ان کو ہمیشہ پی ایم صاحب ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ وہ قسمت کے دھنی ہیں مجھے تو لگتا ہے چوتھی مرتبہ بھی اقتدار کا پرندہ ان کے سر پر ہی بیٹھے گا۔ ” وزیراعظم “ بلاول بھٹو بھی سنا ہے شیروانی سِلا چکے ہیں اور ” وزیر ِ اعظم “ شاہ محمود قریشی بھی کئی دفعہ مبارکبادیں وصول فرماتے فرماتے رہ گئے۔ عوام کی اکثریت چودہ سیاسی جماعتوں کو عوام مخالف جماعتیں ہی نہیں بلکہ عوام دشمن جماعتیں سمجھ رہی ہے۔ 
شہباز شریف حکومت نے مشکل فیصلوں کے نام جو کچھ عوام کے ساتھ کیا اور بدلے میں اپنے کیس معاف کروا کے چلتے بنے اب بھگتنا میاں نواز شریف کو پڑے گا۔ میاں نوازشریف کو پاکستان آتے ہی یہ جو چپ سی لگ گئی ہے یہ نہ تو بے سبب ہے اور نہ بے معنی۔ انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکنے والے پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں انہیں اس دفعہ صاف نظر آ رہا ہے کہ پارٹیوں کے خلائی بیانیوں اور زمینی حقائق میں بہت بڑا گیپ پیدا ہوچکا ہے۔ یہی حال آصف علی زرداری کا بھی ہے کہ نہ کوئی بیان نہ بڑھک ، نہ کسی کو گدگدی نہ رڑک۔ لگتا ہے جیسے معاملات حسب منشاءکسی کو بھی ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ دوسری طرف پاکستان میں تسلسل سے ہونے والی دہشت گردی نے سارے ملک کو رنج و ملال اور تشویش کا شکار کر رکھا ہے۔ ہر طرف ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ کیا واقعی الیکشن ہونگے ؟۔ 
 پاکستان کو چاروں طرف سے بری طرح الجھا کے رکھ دیا گیا ہے۔ عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور اس سے بھی بڑی اکثریت مہنگائی گردی کی وجہ سے اپنی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام اتحادی جماعتوں کو سمجھتی ہے۔
پاکستان کی عوام کا وہ حصہ جنہیں اس سے کو?ی غرض نہیں کہ کس کی حکومت ہے اور کس کی نہیں ہے اور جنہیں صرف اپنی روٹی روزی سے غرض ہے ان کے خیال میں ان کی تمام تر معاشی مشکلات کا ذمہ دار امریکہ اور ہماری اسٹیبلشمینٹ ہے۔ 
 امریکہ کو خیر اس کی پرواہ کیا ہونی ہے کہ پاکستان یا غزہ یا یوکرین میں کوئی مرے یا جایے البتہ اسٹیبلشمینٹ کی پوری خواہش اور کوشش ہے کہ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہوچکا ہے اسے کسی بھی طرح ختم کیا جائے لیکن ہمارے فوجی جوانوں پر آئے دن ہونے والے دہشت گردانہ حملے ان کی توجہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی سے ہٹا کر صرف اور صرف سیکیوریٹی تک محدود کرنے کے لیے ہی پلان کیے گئے ہیں ورنہ زراعت اور معدنی وسائل کو بروئے کار لانے کے جو منصوبے شروع کیے جاچکے ہیں وہ جلد اور مثبت نتائج مرتب کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ 
ایک طرف پاکستان کو درپیش سیکیوریٹی چیلنجز دوسری طرف مختلف خدشات میں گھرے انتخابات کا مخمصہ اور تیسری طرف عوام کا مسلسل بگڑا ہوا موڈ۔ نوازشریف اگر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہو بھی گئے تو پھر جو دمادم مست قلندر شروع ہوگا اس کی توقع کسی کو بھی نہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آئیگی عوام کو سوائے مزید مشکلات کے کچھ بھی نہیں دے پاءگی اور اس دفعہ کے اقتدار کے بدلے ہوسکتا ہے مستقبل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں