پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!!

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ کر ام ؓ آپ کے دونوں طرف تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔ حضرت مطرف رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت آیا آپ پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، میرا مال اے ابن آدم تیرا کیا مال ہے تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھالیا اور ختم کرلیا یا جو تو نے پہن لیا اور پرانا کرلیا یا جو تو نے صدقہ کیا پھر تو ختم ہو گیا۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا بندہ کہتا ہے: میرا مال ، میرا مال ۔ حالانکہ اس کے مال میں سے اس کی صرف تین چیزیں ہے جو کھایا اور ختم کرلیا جو پہنا اور پرانا کرلیا جو اس نے اللہ کے راستہ میں دیا یہ اس نے آخرت کےلئے جمع کرلیا اس کے علاوہ تو صرف جانے والا اور لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا مرنے والے کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں پھر دو واپس آجاتی ہیں جبکہ ایک چیز باقی رہ جاتی ہے مرنے والے کے ساتھ اس کے گھر والے اور اس کا مال اور اس کے عمل جاتے ہیں اس کے گھر والے اور اس کا مال تو واپس آجاتا ہے اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ وہ غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ موجود تھے انہوں نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو بحرین کی طرف بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاءبن حضرمی ؓ کو امیر مقرر فرمایا تھا حضرت ابوعبیدہ ؓ بحرین کا مال و صول کر کے لائے انصار نے جب یہ بات سنی کہ حضرت ابوعبید ؓ آگئے ہیں تو انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ کے ساتھ پڑھی پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نماز سے فارغ ہوئے اور انصار آپ کے سامنے پیش ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم انہیں دیکھ کر خوش ہوئے (مسکرائے) پھر آپ نے فرمایا میرا گمان ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ حضرت ابوعبید بحرین سے کچھ (مال) لے کر آئے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا خوش ہوجاو¿ اور تم لوگ اس بات کی امید رکھو کہ جس سے تمہیں خوش ہوگی اور اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں تم پر دنیا کشادہ نہ ہوجائے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں نے حسد کیا اور تم ہلاک ہوجاو¿ جیسا کہ تم سے پہلے ہلاک ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جب فارس اور روم کو فتح کر لیا جائے گا اس وقت تم کس حال میں ہو گے؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ہمیں جس طرح اللہ نے حکم فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کیا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں؟ تم ایک دوسرے پر رشک کرو گے پھر آپس میں ایک دوسرے سے حسد کرو گے پھر آپس میں ایک دوسرے سے بغض رکھو گے یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اسی طرح کچھ فرمایا پھر تم مسکین مہاجروں کی طرف جاو¿ گے اور پھر ایک دوسرے کی گردنوں پر سواری کرو گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کسی دوسرے ایسے آدمی کو دیکھ کر جو اس سے مال اور صورت میں بڑھ کر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے بھی دیکھے کہ جو اس سے مال و صورت میں کم تر ہو جسے اس پر فضیلت دی گئی ہے اختیار کرنے کے نتیجہ میں انسان میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی رغبت پیدا ہو گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تم اس آدمی کی طرف دیکھو کہ جو تم سے کم تر درجہ میں ہے اور اس آدمی کی طرف نہ دیکھو کہ جو درجہ میں تم سے بلند ہو تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھنے لگ جاو¿۔ حضرت عامر بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے اونٹوں میں (موجود) تھے کہ اسی دوران ان کا بیٹا عمر آیا تو جب حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے دیکھا تو فرمایا میں سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں تو جب وہ اترا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہنے لگا کہ کیا آپ اونٹوں اور بکریوں میں رہنے لگے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور وہ ملک کی خاطر جھگڑ رہے ہیں تو حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا خاموش ہو جا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فرماتے ہیں کہ اللہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو پرہیزگار اور غنی ہے اور ایک کونے میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ 
حضرت خالد بن عمیر عدوی ؓ سے روایت ہے کہ عتبہ بن غزوان نے ہمیں ایک خطبہ دیا۔ انہوں نے (سب سے پہلے) اللہ تعالیٰ کی حمد وثناءبیان کی پھر فرمایا اما بعد! کہ دنیا نے اپنے ختم ہونے کی خبر دے دی ہے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ جس طرح ایک برتن میں کچھ بچا ہوا پانی باقی رہ جاتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے اور تم لوگ اس دنیا سے ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو کہ جس کو پھر کوئی زوال نہیں۔ لہذا تم اپنے نیک اعمال آگے بھیج کر جاو¿ کیونکہ ہمیں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ ایک پتھر جہنم کے ایک کنارے سے اس میں ڈالا جائے گا اور وہ ستر سال تک اس میں گرتا رہے گا پھر بھی وہ جہنم کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اللہ کی قسم! دوزخ کو بھر دیا جائے گا کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ جنت کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چالیس سال کی مسافت ہے اور جنت پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے بھری ہوئی ہوگی اور تو نے مجھے دیکھا ہوگا کہ میں ساتوں میں سے سا تواں ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ تھے ہمارا کھانا سوائے درختوں کے پتوں کے اور کچھ نہ تھا۔ یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں۔ مجھے ایک چادر ملی جسے پھاڑ کر میں نے دو ٹکڑے کئے ایک ٹکڑے کا تہ بند بنایا اور ایک ٹکڑے کا سعد بن مالک نے تہ بند بنایا اور آج ہم میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں ہے کہ جو شہروں میں سے کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات کی کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں چھوٹا سمجھا جاو¿ں اور تم عنقریب ان حاکموں کا تجربہ کرو گے کہ جو ہمارے بعد میں آئیں گے۔
اللہ تعالٰی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے سنتوں کو پھیلانے اور جو لوگ سنتوں کو پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کی توفیق عطاءفرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن