آرمی چیف کی ملکی، علاقائی اور عالمی  امن کو درپیش چیلنجوں پر مدلل گفتگو

Nov 17, 2024

اداریہ

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ آج دنیا کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیزی سے پھیلاﺅ ایک اہم چیلنج ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ 2024ءکی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امن و استحکام میں پاکستان کے کردار کے موضوع پر بات کی اور علاقائی ہم آہنگی اور بین الاقوامی امن کو آگے بڑھانے میں نمایاں کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ اس نشست کا اہتمام اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کی جانب سے کیا گیا تھا۔ 
سید جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں کئی تبدیلیوں کے پیش نظر غیرریاستی عناصر کا اثر و رسوخ بڑھ جانا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی سطح پر معیشت‘ افواج اور ٹیکنالوجی میں بے انتہاءتبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں‘ پرتشدد غیرریاستی عناصر اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج ہے۔ انکے بقول ٹیکنالوجی نے جہاں معلومات کے پھیلاﺅ میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں گمراہ کن اور غلط معلومات کا پھیلاﺅ ایک اہم چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامع قوانین اور قواعد و ضوابط کے بغیر غلط اور گمراہ کن معلومات اور نفرت انگیز بیانات سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو غیرمستحکم کرتے رہیں گے۔ قواعد و ضوابط کے بغیر آزادی اظہار رائے تمام معاشروں میں اخلاقی قدروں کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے۔ عالمی سطح پر مذہبی‘ فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر عدم مساوات‘ عدم برداشت اور تقسیم بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے مشترکہ مقاصد میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ اور عالمی صحت کی فراہمی جیسے اہم چیلنجز شامل ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان دنیا اور خطے میں امن و استحکام کیلئے اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی عالمی سطح پر تمام انسانیت کیلئے ایک مشترکہ چیلنج ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا عزم غیرمتزلزل ہے۔ انکے بقول فتنہ الخوارج دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں اور پراکسز کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پاکستان عبوری افغان حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کا استعمال نہیں ہونے دیگی اور اس حوالے سے سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”عزم استحکام“ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو ہے جس کا مقصد دہشت گردی اور انتہاءپسندی کا خاتمہ ہے۔ بھارت کے انتہاءپسندانہ نظریے کی وجہ سے بیرون ملک بالخصوص امریکہ‘ برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اقلیتیں محفوظ نہیں جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم وبربریت بھی ہندوتوا نظریے اور پالیسی کا تسلسل ہے۔ مسئلہ جموں و کشمیر کا یواین قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ناگزیر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ غزہ‘ لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم کسی عالمی تنازعہ کا حصہ نہیں بنیں گے مگر دنیا میں امن و استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ عالمی امن کی خاطر دو لاکھ 35 ہزار پاکستانی اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں اور 181 پاکستانیوں نے عالمی امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان خطے اور عالمی امن کیلئے اپنا مثبت کردار ہمیشہ ادا کرتا رہے گا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا کو جن بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے‘ وہ دہشت گردی کے پھیلاﺅ اور اس میں انٹرنیٹ کے کردار سے متعلق ہیں جبکہ عالمی اور علاقائی تنازعات بھی علاقائی اور عالمی امن کیلئے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں چیف آف آرمی سٹاف نے امن اور استحکام میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے مارگلہ ڈائیلاگ میں جو اہم نکات اٹھائے ہیں‘ وہ تمام عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں سے غوروفکر اور متفقہ سوچ کے تحت کوئی حتمی لائحہ عمل طے کرنے کے متقاضی ہیں۔ پاکستان کو تو اسکی تشکیل کے وقت سے ہی اسکے دشمنِ اول بھارت کی جانب سے اپنی سلامتی کیلئے خطرات لاحق ہیں جس نے پاکستان کی آزاد اور خودمختار حیثیت کو شروع دن سے ہی خلوص دل کے ساتھ قبول نہیں کیا چنانچہ کسی بھی طریقے سے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا بھارتی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ اس نے یہ مقاصد پاکستان پر باقاعدہ تین جنگیں مسلط کرکے بھی پورے کرنے کی کوشش کی اور وہ پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے اس نے کشمیر سے آنیوالے دریاﺅں پر بھی اپنا تسلط جمایا چنانچہ وہ گاہے بگاہے پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی کا ارتکاب بھی کرتا رہتا ہے۔ 
جب بھارت کو پاکستان کیخلاف اپنی ان سازشوں میں کامیابی نہ ملی تو اس نے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کیلئے اپنے نیٹ ورک کا جال پھیلایا اور ”را“ کے ایجنٹ اور تربیت یافتہ دہشت گردوں کے علاوہ پاکستان کے اندر موجود اپنے آلہ کار عناصر کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے اسے اپنے دہشت گردانہ مقاصد میں پاکستان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی افغانستان کی حکومتوں کی معاونت بھی حاصل ہوتی رہی چنانچہ بھارت کو افغان سرزمین پر ہی انتہاءپسندانہ سوچ اور نظریہ رکھنے والے افغانیوں کو تربیت دیکر اور انکی فنڈنگ و سرپرستی کرکے پاکستان میں داخل کرنے کی کابل انتظامیہ کے ذریعے سہولت ملتی رہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں‘ جن میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو بطور خاص ٹارگٹ کیا جاتا ہے، ان میں سے 95 فیصد وارداتوں میں بھارت ہی ملوث ہے جس کیلئے کابل انتظامیہ کی معاونت اسکے شامل حال ہے۔ 
بدقسمتی سے دہشت گردی کے فروغ میں انٹرنیٹ پر موجود مختلف ایپس نے دہشت گرد عناصر‘ انکے سہولت کاروں اور سرپرستوں کے مابین رابطہ کاری کا راستہ کھول دیا چنانچہ ان ایپس کے ذریعے دہشت گردوں کیلئے کسی علاقے میں اپنے ہدف پر پہنچ کر دہشت گردی کی خاطر مطلوبہ معلومات لینا اور دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والا مواد پہنچانا بھی آسان ہو گیا۔ اس سہولت کاری کی بدولت بھارت کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے اہداف تک پہنچ کر دہشت گردی کرانا آسان ہو گیا ہے اور بھارت نے کینیڈا‘ برطانیہ‘ امریکہ میں اپنے اہداف تک پہنچنے کی سہولت اسی بنیاد پر حاصل کی ہے جس کیخلاف ان ممالک کی جانب سے بھارت کو دی جانیوالی وارننگز بھی ریکارڈ پر موجود ہیں اور اسی تناظر میں بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ 
ہمیں انٹرنیٹ ایپس کی دستیاب سہولتوں کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ملک کے اندر موجود پاکستان کے بدخواہ عناصر بھی بھارت کے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بھی ان ایپس کے ذریعے پاکستان کا امن برباد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان میں فتنہ الخوارج زیادہ خطرناک ہے جو کابل انتظامیہ کی شہ پر پاکستان میں دہشت گرد حملے کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ پاکستان کو بلاشبہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور بھارت کو بھی ہماری اس اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ اس تناظر میں دہشت گردوں کو نکیل ڈالنا پاکستان کی تو ضرورت ہے جس کیلئے سانحہ اے پی ایس کے بعد وضع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ سیاسی عسکری قیادتوں کا حال ہی میں وضع کردہ ”عزم استحکام“ پروگرام بھی بروئے کار ہے۔ عساکر پاکستان تو ملک کی سرحدوں کے دفاع اور اندرونی امن و استحکام کیلئے قربانیوں سے لبریز اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے علاوہ عالمی اور علاقائی امن کیلئے بھی یواین مشن کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے جس کا مفصل تذکرہ جنرل سید عاصم منیر نے گذشتہ روز مارگلہ ڈائیلاگ میں کیا ہے۔ اب عالمی قیادتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی اور علاقائی امن کی ذمہ داریوں میں پاکستان کی مخلصانہ معاونت کریں۔ اور انٹرنیٹ کی دستیاب سہولتوں کے ذریعے شر اور فساد پھیلانے اور بلیم گیم کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے عناصر پر قانون کی عملداری میں معاون بنیں۔

مزیدخبریں