”ایڈ نہیں ٹریڈ“

مالک کائنات نے روٹی رزق کا وعدہ کیا تو وہ نبھا بھی رہا ہے۔ جو لوگ انکاری ہیں وہ دیکھ لیں کہ زیر زمین ،پتھروں کے نیچے اور پانی کے اندر بھی زندگی کیلئے رزق دیا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ اگر وہ رزق کسی بندے کے ہاتھ میں دے دیتا تو اسے یہ بدگمانی ہو جاتی کہ یہ سب کچھ اس کی صلاحیتوں کا انعام ہے لہذا کسی کو کیوں دیا جائے؟ اسے کسی کی فکر نہیں ہوتی وہ یہی سوچتا کہ کوئی مرتا ہے تو مر جائے‘ اگر زندگی دینے والے نے اسے بچانا ہوگا تو خود اسے وہ کچھ عطا کر دے گا جس سے اس کی زندگی محفوظ ہو جائے گی ،وہ دلوں اور نیتوں کے حال خوب جانتا ہے لیکن بندہ خدا یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے نسخہ کیمیا قر آ ن مجید میں یہ صاف صاف بتا دیا کہ زمین و آ سمان اور اس کی نعمتیں تیرے لیے ہیں ،تو قدرت کی دی ہوئی طاقت اور اپنی عقل سلیم سے انہیں تسخیر کر ،جدوجہد اور ہمت و کوشش سے یہ سب کچھ تیرا مقدر بن جائے گا ،خود بھی اس کے ثمرات حاصل کر اور دوسروں کیلئے آ سانیاں پیدا کر تاکہ وہ بھی قدرت کی نعمتوں کا مزہ اٹھا سکیں اور شکر گزار ہوں، اسی لیے اس نے،، سورہ رحمن،، میں چیلنج بھی کیا کہ ،،اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاو گے،، اس نے یہ بھی بتا دیا کہ قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے لیکن جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور حق کا ساتھ دیا انہیں خسارے کا کوئی خوف نہیں، مقصد آ سان الفاظ میں یہی ہے کہ اگر تجھے تیرے رب نے زندگی اور عقل دی ہے تو اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف اپنے لیے کچھ کر بلکہ دوسروں کے لیے بھی مددگار ثابت ہو کیونکہ،، ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آ نا ،،تیرا اپنا کچھ نہیں ،سب عطا کردہ ہے خدا کا اور تو اس کے شکرانے کے لیے بندہ خدا کے لیے بھی صبر و تحمل سے کچھ کر ،عطا اس کی، بندے اس کے، ہاتھ تیرا، سخاوت کر اور دینے والے کا شکر گزار بن جا پھر دیکھ دینے والا کتنا مہربان ہے ،کوئی گھر ہو کہ ادارہ ،اس کی خوشحالی اور ترقی جہد مسلسل اور محنت کی بنیاد پر ہوتی ہے فرق صرف یہی ہے کہ نکمے اور مایوس کچھ نہ کرنے کی وجہ سے تنر لی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو وقت کی قدر کرتے ہوئے صبر اور سچائی کے ساتھ محنت کرتے ہیں کامیابی ان کی قدم چومتی ہے کیونکہ ”ہمت مرداں مدد خدا،، کا فارمولا مقدر بن جاتا ہے۔ جس طرح کچھ کیے بغیر ادھار اور قرضے پر ایک چھوٹا سا گھر نہیں چل سکتا بالکل اسی طرح ریاست بھی نہیں چلتی۔ حضرت انسان کی عادت ہے کہ کمزور کو اپنے مفادات میں پھنسا کر اپنا کام چلائے، ضرورت مند کی ہمدردی میں،، قرض،، دے اور پھر اسے،، سود ،،کے منافع کے ساتھ وصول کر کے خود موجیں مارے، یہ ادا اسلام کی بنیادی روح کے خلاف ہے کہ کسی کی ضرورت یا کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اسے زیر بار لایا جائے، اسی لیے ،،سود ،،کو اللہ سے جنگ قرار دیا گیا ہے پھر بھی دنیا کا کاروبار حیات کسی غیر اخلاقی ،غیر اسلامی روایت پر چل رہا ہے حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ، حالات کار میں قرضوں سے نہیں بچ سکتے، اس کا ایک ہی علاج ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی قرضوں سے دور رہا جائے۔ اس وقت ملک آ ئی۔ ایم۔ ایف اور دوست ممالک کے قرضوں کی بدولت دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا لیکن وطن عزیز کا ہر بچہ پیدائشی طور پر مقروض ہے۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ مسلم امہ کی پہلی اور دنیا کی ساتویں،، ایٹمی طاقت،، قرضوں کے بوجھ میں سانس لے رہی ہے۔
 صدر آ صف علی زرداری نے اپنے پہلے دور اقتدار میں نعرہ لگایا تھا،، ایڈ نہیں ٹریڈ ،،ہمیں غریب اور ترقی پذیر ملک سمجھ کر قرضے نہ دیے جائیں بلکہ ہماری صلاحیتوں اور خطے کے حالات کار کو پرکھتے ہوئے ہم سے،، ٹریڈ،، کی جائے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں جن سے دنیا فائدہ اٹھا سکتی ہے اس وقت اس نعرے کی ضرورت کے مطابق نتائج نہیں نکلے لیکن اب اتحادی حکومت اور وزیراعظم شہباز شریف اسی اصول پر مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں، 16 ماہ کی حکومت میں شہباز شریف کی،، سوشل میڈیا،، پر ٹرولنگ کی گئی کہ وہ جہاں جاتے ہیں امداد کے لیے کشکول پیش کر دیتے ہیں، برے حالات بحرانی دور میں یقینا ایسا کرنے کے سوا کوئی حل بھی نہیں تھا لیکن اب معاملات مختلف ہیں۔ دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر ،عوامی جمہوریہ چین مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ پھر بھی وطن عظیم میں پائی جانے والی دہشت گردی کی نئی لہر بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت اس رکاوٹ کے خاتمے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے اس لیے کہ ہر شخص اس بدامنی سے متاثر ہے اور اسے یہ راز بھی پتہ ہے کہ اگر کسی بھی سرزمین پر خون کی ہولی کھیلی جائے تو وہاں سے امن کی فاختہ اڑ جاتی ہے۔ پاکستان اور اس کی فورسز نے امن کیلئے بھاری قیمت ادا کی، جانی اور مالی نقصان بھی برداشت کیا لیکن یہ مسئلہ وقفے وقفے سے صرف اس لیے سر اٹھا لیتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ کچھ اپنی کالی بھیڑیں بھی اپنے معمولی سے مفادات کی خاطر سہولت کاری انجام دے رہی ہیں جس کی تازہ مثال پشاور پولیس لائن میں ہونے والی دو سالہ پرانی دہشت گردی کی واردات ہے جس کے ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے صرف دو لاکھ کی رقم لے کر مدد کی، اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مجرم پولیس ملازم ہے اور اس سانحے میں 86 پولیس اہلکار شہید اور تقریبا ڈھائی سو افراد زخمی ہوئے تھے اس صورتحال میں ہمیں ہر سطح پر اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ جب تک پوری قوم آ نکھ اور کان کھلے رکھ کر ان کالی بھیڑوں کا محاسبہ نہیں کرےگی اس وقت تک دہشت گردی سے جان نہیں چھوٹے گی ،،ٹریڈ ،، کیلئے ہمیں مختلف شعبہ جات میں پہلے ہوم ورک مکمل کرنا ہوگا پھر مختلف وفود کے تبادلے سے دنیا میں ،،توجہ دلاو نوٹس،، دینا پڑےگا۔ اس وقت کاروباری دنیا پر حقیقت میں یہودی لابی کا راج ہے جو مسلمانوں کو اپنا دشمن،، نمبر ون،، سمجھتا ہے، ہم مسلمان بھی ہیں، غریب بھی، سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم نے غربت میں بھی اپنی صلاحیتوں سے،، ایٹم بم ،،بنا کر دنیا کو حیران کر دیا، پابندیاں لگیں پھر بھی پاوں پر کھڑے ہوئے اور ملکی استحکام کیلئے وہ کچھ کر دکھایا جو بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک نہیں کر سکے، بس یہی ہمارا قصور ہے اور ہمیں ترقی و خوشحالی کی راہ پر آ گے بڑھنے کیلئے دوسروں سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے، بابا ئےقوم اس راز سے واقف تھے جب ہی تو انہوں نے دو بڑے پیغام دیے،، اتحاد ،ایمان اور تنظیم،، کے ساتھ کام، کام اور صرف کام۔ لیکن ہماری حکومتوں اور قوم کے پاس جذبہ ایمانی کے باوجود وسائل اور مسائل کا رونا دھونا موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے لیکن پھر بھی بڑی نہیں تو چھوٹی چھوٹی ٹریڈ کیلئے کچھ نہیں کرتے ،حالانکہ یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ معیشت کی مضبوطی کے بغیر دنیا میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتے، ہمیں ہمسائے بھی ایسے ملے کہ وہاں سے کبھی بھی ٹھنڈی ہوا نہیں ملتی جبکہ بھارت اور چین تنازعات کے باوجود ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ،، ایڈ نہیں ٹریڈ،، سے ہی مثبت نتائج نکل سکتے ہیں آخری بات یہ ہے کہ میں نے ایک ،،لوڈر ٹرک،، کے پیچھے یہ لکھا پڑھا ہے کہ،، اگر آ ج 10 روپے کے کام میں شرمندگی محسوس کرو گے تو کل دو ٹکے کے لوگوں کے محتاج ہو جاو گے،، میرے خیال میں اس سے آسان اور سادہ بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ فیصلہ آ پ کریں ،،ایڈ نہیں ٹریڈ،، کامیابی کا نسخہ ہے کہ نہیں؟

ای پیپر دی نیشن