دنیا کی جمہوری حکومتیں عوام، حکومت اور اپوزیشن کے لگے بندھے اشتراک سے چلتی ہیں۔ عوام انتخابات میں بے خوف و خطر اپنی من پسند جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں جیتنے والی اکثریتی جماعت کے سربراہ کو حکومت سازی کی دعوت دی جاتی ہے جبکہ ہارنے والی جماعت یا جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ حکومت اپنے انتخابی منشور کو سامنے رکھتے ہوئے اندرونی و بیرونی مملکتی امور مبنی پالیسیاں ترتیب دیتی ہے اور پھر ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے میں صِدقِ دِل سے ج±ت جاتی ہے۔ وہ اپنے سر انجام دیے ہوئے کارہائے نمایاں کو مختلف طریقوں سے عوام تک پہنچا کر اپنی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے وہ اپنی عقابی نظریں اگلا انتخابی معرکہ دوبارہ سر کرنے پر گاڑے رکھتی ہے۔ اپوزیشن حکومتی پالیسیوں پر جزوی یا کلی طور پر عمل درآمد نہ ہو سکنے یا کوئی سقم رہ جانے کی صورت میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومتی کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ہَدَفِ تنقید بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اگلی باری حکومت سازی کا موقع حاصل کرنے کی تڑپتی حسرتیں اور مچلتی آرزوئیں ہمہ وقت اس کو عوام کے نزدیک تر کرنے اور دل و دماغ میں اترنے پر اکساتی رہتی ہیں۔ وہ ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹنے اور عوام الناس میں اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے جبکہ عوام حکومت کا دورانیہ مکمل ہونے تک حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ چونکہ تقریر و تحریر اور نقل و حمل پر پابندی نہیں لگائی جاتی، اِس لئے عوام پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ملکی حالات و واقعات سے باخبر رہتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آراءکا اظہار کرنا بھی نہیں بھولتے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں سے جس کسی کی کارکردگی ووٹروں کی نظر میں بہتر اور تسلی بخش ہوتی ہے، اگلی باری میں وہ اس جماعت کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں اور یوں جمہوریت کا یہ عمل عوام الناس کی مرضی و منشاءکے مطابق جاری و ساری رہتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت میں ہما کا کردار رائے دہندگان ادا کرتے ہیں۔ مشہور و مقبول امریکی صدر، ابراہیم لنکن کی جمہوریت کے بارے میں سادہ و مختصر تعریف ”عوام کی، عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے“ سیاسیات کی کتابوں میں سرِ فہرست لکھی جاتی ہے۔
کہنے کو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گاہے بگاہے جمہوریت بھی درج بالا تینوں سٹیک ہولڈرز یعنی حکومت، اپوزیشن اور عوام پر ہی محیط رہی ہے اور اب تک جتنی بھی جمہوری حکومتیں بنی ہیں، انتخابی عمل سے گزر کر ہی برسرِ اقتدار آئی ہیں۔ میڈیا مکمل طور پر آزاد نہ سہی مگر سوشل میڈیا پر تو صارفین اور وی لاگر کھل کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ اب تو ماضی کے برعکس پانچ سالہ انتخابی مدت پوری ہونے سے پہلے الیکشن منعقد نہیں ہو ریے۔ اِس کے باوجود ہمارے جمہوری ڈھانچے میں جمہوری روح پوری طرح داخل نہ ہو سکی۔ سانپ، سیڑھی کا کھیل ہماری جمہوریت پر صادق آتا ہے۔
ہمارے ہاں برسرِ اقتدار اور برسرِ پیکار جماعتیں حکومت اور اپوزیشن کے حقیقی اور اصلی جمہوری سانچوں میں ڈھلنے کی بجائے محض کیفیات کا نام بن کر رہ گئی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر نئی حکومت میں وزیر و مشیر کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہنے والے اکثر و بیشتر منتخب چہرے وہی ہوتے ہیں جو سابقہ حکومت میں بھی وزیر یا مشیر کے عہدے پر براجمان رہ چکے ہوتے ہیں۔ ان کو عرف عام میں الیکٹیبل کہا جاتا ہے۔ یہ قسم عام طور پر چھوٹے شہروں اور ان سے منسلک دیہی حلقوں میں پائی جاتی ہے اور ان کا کل وقتی کام پارٹی بدلنا، الیکشن لڑنا، جیتنا اور پھر وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہوتا ہے۔ یہ ہوا کا رخ پرکھنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں۔ یہ سابقہ حکومت کا حصہ رہنے کے باوجود اس دور کی پالیسیوں پر تنقید کے تند و تیز نشتر چلانے پر بھی کلی دسترس رکھتے ہیں۔ ہمیشہ اعلیٰ حکومتی عہدوں اور منصبوں پر فائز یہ سدا بہار الیکٹیبل نئے انتخابات میں ایک اشارہءابرو پر اس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں جس نے آئندہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے۔ گویا رائے دہندگان کے اظہارِ رائے سے پہلے ہی ایک عالم کو جیتنے والی سیاسی جماعت کا پتہ ہوتا ہے۔ یہ جماعت اشرافیہ کی خوشنودی کا پیراہن اوڑھ کر ہی امورِ حکومت چلانے کی اہل رہتی ہے۔ یونہی مفادات کا ٹکراو ہوا، حکومت کسی نہ کسی حساب سے ختم کر دی جاتی ہے۔
برسرِ اقتدار حکومتی زعماءکے بیانات وہی ہوتے ہیں جو سابقہ حکومت کے ہوا کرتے تھے۔ بیانات کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ سابقہ دور میں بنے مقدمات تیزی سے اپنے حق میں نپٹائے جانے کے جتن کرتے ہیں۔ اپنے مقدمات کا بوجھ اتارنے کے ساتھ ساتھ وہ اس سے کہیں زیادہ بوجھ اپوزیشن رہبروں پر بھی لاد کر اپنی انا کو تسکین پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اسے بیاہ شادیوں پر رائج نیوندرا/ سلامی کی رسم بھی کہا جاتا ہے۔ عوام پر اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں کا ملبہ سابقہ حکومتی پالیسیوں اور عدالتی فیصلوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اور ہاں! غیر جانبدار عدلیہ اور آزاد میڈیا اس کو ایک آنکھ نہیں بھاتاہے۔
اپوزیشن مقدمات میں ریلیف کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ فیصلہ حق میں آنے کی صورت میں حق و انصاف کی تاریخی فتح اور مخالف آنے پر چمک، دباو، جانبداری اور انصاف کے قتل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن طویل مقدمہ بازی اور جیل کی اذیتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مناسب موقع کی تاک میں بیٹھی ہوتی ہے۔ یونہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دراڑیں پیدا ہونے کے آثار ہویدا ہونے لگتے ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حکومت پر دباو بڑھانے کے لئے جلسے جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے حامیوں کو تازہ دم رکھنے اور اپنے ووٹ بنک کو intact رکھنے کے لئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس کے مقتدر قوتوں سے معاملات طے ہونے کو ہیں۔ میڈیا سے ازسر نو تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ اور مظلومیت ظاہر کرنے کے لئے غیر ملکی کنسلٹنٹ فرمیں ہائر کرکے اپنے حق میں لابنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے قائدین کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر اپوزیشن حکومت کو اور ہر حکومت اپوزیشن کو ملک دشمن، ہنود و یہود اور امریکی ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ اندرونی سازشوں اور بیرونی مداخلت کے فسانے بھی تراشے اور دہرائے جاتے ہیں۔ گویا حکومتی لوگ محب وطن، دیانت دار اور عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والے جبکہ اپوزیشن کے تمام رہبر غدار، طاغوتی ایجنٹ، کرپٹ، نااہل اور ملک دشمن ہوتے ہیں۔