چوہدری ریاض مسعود   عوام کو حقیقی ریلیف کب ملے گا؟

                        نقطہ نظر                    تحریر
                                  ch.riazmasood@gmail.com
     برِ صغیر کے مسلمانوں نے حضرت قائدِاعظمؒ کی ولولہ انگیز اور جئرات مند قیادت میں لازوال جانی اور مالی قربانیاں دے کر یہ پاک خطہ ارضی "پاکستان "حاصل کیا اور انگریزوں اور ہندوو¿ں کی غلامی سے نجات حاصل کی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس وطن کی بنیادوں میں لاکھوں شہداءکا خون بھی شامل ہے۔ آزادی کی اس عظیم جدوجہد میں مسلمانوں نے جس جذبے ، قربانی، اتحاد و اتفاق، عزم، حوصلے ، جئرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا یہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہمیں اپنی خود داری، خود مختاری ، نظریاتی تشخیص ، اور سا لمیت کے لیے پوری ذمہ داری، ایمانداری اور عزم و حوصلے کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ روزنامہ نوائے وقت نے اپنی اشاعت سے اب تک نظریہ پاکستان کے فروغ اور نوجوان نسل کو قیامِ پاکستان کے مقاصد سے آگاہی کے لیے مکمل ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دئیے ہیں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر پاکستانی کو دن رات کا کرنا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس وطن کو ترقی یافتہ بنانے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اور جامع پالیسیاں بنائے۔ قدرت نے پاکستان کو بے شمار،معدنی، آبی اور انسانی وسائل سے نواز ا ہے ۔اللہ کی عطاءکردہ ان نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا کر ہم اپنے وطن کو گُل و گلزار بنا سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معدنی ذخائر اور زرعی اراضی کو کسی غیر ممالک کو ٹھیکے پر دینے کی بجائے خود اِسے زیرِ استعمال لائے اور ملک کی تقدیر بدل دے ۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہر قومی اور بین الاقوامی امور پر اپنے عوام کو اعتماد میں لے اور ان کے سامنے کھلے دِ ل کے ساتھ حقائق پیش کرے اور انہیں اعدادوشمار کے"گورکھ دھندے" میں نہ اُلجھائے۔آپ مہنگائی کے مسئلے کو ہی لے لیں، وزیرِ اعظم صاحب، ان کے وزراء، مشیران اور ن لیگی رہنما مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہورہی ہے اور آئی ایم ایف ہمیں سخت شرائط پر بھاری قرضے دینے کے باوجود بھی یہی دعوے کر رہاہے کہ پاکستان میں آنے والے وقت میں مہنگائی میں مزید کمی ہو جائے گی۔ ان دعوو¿ں کے باوجود حقیقت حال یہ کہ پاکستان میں مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے اور اس سے عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے ۔ حکومتی ادارہ شماریات نہ جانے کہا ں سے مہنگائی کم ہونے کے اعدادوشمار اکھٹے کرتا ہے ہماری سبزی منڈیوں، فروٹ اور غلہ منڈیوں ، گوشت کی مارکیٹوں اور عام بازروں میں مہنگائی کا جو طوفان ہے اس کا سامنا ہماری عوام کو روز ہی کرنا پڑتا ہے ۔عوام سے زیادہ حقیقت حال سے کون واقف ہو سکتاہے ؟ کیا اس تلخ حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ملک میں غربت اور بے روزگاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کی نسبت غربت میں تین فیصد اضافہ کے بعد یہ شرح 40.5%تک پہنچ چکی ہے اور یہاں سالانہ 16لاکھ نئے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت رائیٹ سائزنگ اور ڈاو¿ن سائزنگ کے نام پر پاکستان پوسٹ 

-2-
آفس ، پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ اور دیگر محکموں سے ہزاروں نچلے درجے کے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے جبکہ افسران کی موجیں ہی 
موجیںہیں۔ سرکاری ملازمین ، بزرگ پنشنرز اور عوام اگر حکومت سے مہنگائی کی وجہ سے کوئی ریلیف مانگیں تو ملک کی مالی اور معاشی حالت ٹھیک نہ ہونے کی گردان سنائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں عوام کی داد فریاد کون سنتا ہے؟ دکھ بھری حقیقت ہے کہ عوام ایک تو اشیائے ضرورت مہنگے داموں خریدنے پر مجبورہیں اور اس پر مزید ظلم ان اشیائے خوردنی میں بے پناہ ملاوٹ بھی ہوتی ہے۔ حکومت ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں ، ملاوٹ کرنے والے اور دیگر مافیاز کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے ۔حیران کن بات یہ کہ میونسپل اداروں نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ایک طرف تو مقامی ٹیکسوں کی بھر مار کردی ہے تو دوسری طرف سڑکوں ، گلیوں، بازاروں ، پلازوں، بینکوں ، ہسپتالوں ، پارکوں، تاریخی و تفریحی مقامات پر پارکنگ سٹینڈ ٹھیکے پر دیئے ہوئے ہیں ۔ جہاں ٹھیکیدار عوام سے من مانے پیسے بٹور رہے ہیں ۔ہماری قومی شاہراہوں پر قائم ٹول پلازوں کی فیس میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے یعنی سارے دکھ ، درد اورمشکلات عام عوام کے لیے ہیں جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہر جگہ پر ریلیف ہی ریلیف ہے۔ اللہ خیر کرے اب تو حکومت نچلے درجے کی ملازمتیں ختم کر کے انہیں آو¿ٹ سورس بھی کر رہی ہیں۔ پنجاب میں تعلیمی اداروں کو آو¿ٹ سورس کرنے کا عمل پہلے ہی جاری ہے اور یہی نسخہ کیمیا اب محکمہ صحت پر آزمانے تیاریاں بھی ہو رہی ہیں ۔ یاد رہے کہ حکومت بڑے بڑے قومی اداروں ، خاص کر پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل ملز کو پہلے ہی شربت نجکاری پلا رہی ہے ۔ جبکہ ابھی کئی اور ادارے نجکاری کی بھٹی چڑھنے والے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی مالیاتی ، انتظامی اور منصوبہ بندی کی کمزوریوں کو دور کر کے قومی اداروں اور محکموں کو بحال کر لے نہ کہ نجکاری کے ذریعے ان سے چھٹکارا حاصل کر لے۔ ہماری وزارت خزانہ کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکج ملنے کے بعد پاکستان کو دیگر مالیاتی اداروں سے فنڈز ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف ہم اپنے دوست ممالک سے بھی امداد کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ عالمی بنک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بنک پہلے سے ہی پاکستان کو قرضے دینے کا پروگرام بنا چکا ہے۔ آج تک کسی حکمران نے قوم کو یہ بات نہیں بتائی کہ یہ 71ہزار روپے کے بھاری قرضے کب اور کس طرح واپس ہو ں گے۔ وزیرِ اعظم نے آذر بائیجان میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ بالکل صحیح کہا ہے کہ غیر ملکی قرضے ترقی پذیرممالک کے لیے موت ہیں لیکن اس کے باوجود ہم آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لے رہیں ہیں اور اس کے ہر مطالبے کو مان کر اپنے عوام پر مہنگائی کے بم گرا رہے ہیں ۔ ہم آئی ایم ایف کے مطالبے پر اپنی معیشت کے بنیادی ستون "زراعت" پر ٹیکس لگانے کے لیے کیوں پر تول رہیں ہیں ۔ حکمران یاد رکھیں کہ ملک بھر میں زرخیز زرعی اراضی پر بننے والی رہائشی سکیموں میں ہمارے زیرِ کاشت رقبے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور یقینا زراعت پر ٹیکس لگانے سے اس کی جڑیں بھی ہل جائیں گی۔ تازہ ترین مگر افسوس ناک خبر یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی نے 14نومبر کو زرعی انکم ٹیکس بل کثرتِ رائے سے پاس کر کے آئی ایم ایف کے درینہ خواب کی تعبیر کر دی ہے ۔ اس بل کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف کے ارکان نے پنجاب اسمبلی سے واک آو¿ٹ کیا اور کہا کہ ہمارا کسان پہلے ہی سے 

-3-
خسارے میں ہے اور اس زرعی ٹیکس سے اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اس بل کے مطابق اب زرعی اراضی پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی جبکہ زیادہ آمدن والے کسانوں پر سپر ٹیکس اور لائیو سٹاک پر بھی ٹیکس عائد ہوگا۔ اس کے علاوہ بروقت زرعی انکم ٹیکس نہ دینے والوں پرروزانہ کی بنیاد پر جرمانے بھی ہونگے ۔ پنجاب حکومت کے اس فیصلے پر صوبے بھر کے کاشتکاروں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور کسان رہنماو¿ں نے گورنر پنجاب سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بل کو پاس نہ کریں ۔ لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی سرمایہ کاروں کو بھی دل کھول کر مراعات دیں تاکہ وہ بھی یہاں سرمایہ کاری کر سکیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں نے پچھلے چند ماہ میں ریکارڈ تر سیلات زر کی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بے حد اضافہ ہوا ہے حکومت نے سرمایہ کاروں صنعتکاروں اور تا جروں کے مطالبے پر شرح سود 22%سے کم کر کے 15%کر دی ہے ملک کے خزانے بھرنے میں انکم ٹیکس فائلرز کی ریکارڈ تعداد 52لاکھ15ہزاردبھر پور کردار ادا کرے گی یا د رہے کہ اس سال فائلر کی تعداد میں 28لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بجلی اور گیس کے گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یقینا حکومت کی کامیاب حکمتِ عملی کی وجہ سے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم ہونے سے 411ارب کی بچت ہوگی لیکن فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ یاد رہے کہ پاکستان کا گھریلو اور صنعتی بجلی کا ٹیرف اس خطے میں سب سے زیادہ ہے حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔ چند دن پہلے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا اسی دن سے پاکستان عوام پریشان ہے کہ کہیں حکومت منی بجٹ نہ پیش کر دے جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف عوام پر 189ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا حکم صادر کر رہی ہے ۔ جس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام پر ٹیکسوں کے موجودہ بوجھ کو معقول حد تک کم کرے ۔ عوام کی سہولت کے لیے پٹرول ، ڈیزل، مٹی کا تیل، گیس، پانی اور بجلی کے نرخ کم کرے جو کہ پہلے ہی مہنگائی غربت ، بے روزگاری اور مافیا ز سے تنگ آچکے ہیں۔ ہمارے حکمران یا د رکھیں کہ عوام کے مسائل کو حل کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ عوام کو جس قدر سہولتیں دیں گے عوام ا ُسی جذبے اور محنت کے ساتھ اس وطن کی تعمیرو ترقی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن