سکول بل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیدہ و دل

ڈاکٹر ندا ایلی 
وہ کہنے لگا مجھے آج بھی یاد ہے ابتدا میں ابو بائیک پر سکول چھوڑنے جایا کرتے تھے ۔ پھر چاہے بارش ہو یا دھوپ ہم بنا پانی یا بارش کے قطروں سے بھیگے روزانہ سکول پہنچ جایا کرتے تھے ۔۔ امی ہمیں ڈبے میں بند گرما گرم لنچ اور صاف پانی کی بوتل ساتھ دیا کرتی تھیں ۔ ہم آنکھیں ملتے اور سکول بیل کی آواز کو ناگواری سے سنتے ہوئے پورا دن سکول میں گزار کر جب گھر پہنچتے تھے تو یونیفارم سپورٹس گراﺅنڈ کی دھول میں اٹا ہوتا تھا پھر نہ جانے کیسے اگلے دن بالکل نیا استری شدہ یونیفارم تیار ملتا تھا ۔۔ ایسے ہی روزانہ ہاتھ پکڑ کر چھوڑتے چھوڑتے معلوم ہی نہ ہوا کب پہلے گریڈ سے آخری گریڈ تک پہنچ گئے ۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے ہاتھ نہ جانے کب سہارا دینے والے ہاتھ بن گئے ۔۔ اس کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ جیسے وہ میری بات کر رہا ہو ۔۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ ماں باپ آپ کو سکول کے لئے آواز دے کر اٹھاتے ہیں یا کوئی ہنر سکھا کر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی بات کرتے ہیں تو ان آوازوں کو ان باتوں کو قدرت کا انمول تحفہ سمجھ کر ہمیشہ محفوظ رکھو اور ایسا کرنے والے کبھی زمین کا بوجھ نہیں بنتے ۔زمین کا بوجھ اٹھانے والے بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن