اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پاکستان میں ”سموگ“ ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکا ہے۔ جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ سموگ کے اسباب میں جہاں صنعتی آلودگی، گاڑیوں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کا ذکر آتا ہے وہاں فصلوں کی باقیات کا جلایا جانا، کوئلے کا بے دریغ استعمال اور موسمیاتی تغیر و تبدیلی بھی ان اسباب میں شامل ہے۔
سموگ (Smog)دھویں اور دھند کا امتزاج ہے۔ لفظ سموگ انگریزی کے ایک اور لفظ فوگ (Fog)سے مل کر بنا ہے۔ جب موسم کی تبدیلی ہوتی ہے اور سردیاں آتی ہیں تو ہونےوالی موسم کی اس تبدیلی کے دوران ماحولیاتی عمل کی وجہ سے سردی کے موسم میں بادل رات کے وقت زمین کی سطح پر آ جاتے ہیں اور صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی تپش سے یہ بادل غائب ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر فضا میں جو گہری گھٹا پیدا ہوتی ہے اسے ہم فوگ (Fog)یا دھند کہتے ہیں۔ آج جس دھند کا سامنا ہم کر رہے ہیں یہ فوگ نہیں سموگ ہے۔ سموگ پیلی یا کالی دھند کا نام ہے۔ جو فضا میں آلودگی سے بنتی ہے۔ سموگ میں ایسے بہت سے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں جو بڑی تعداد میں گیس، مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں اور پھر فضا میں مہلک ترین ذرات کی یہ آمیزش”سموگ“ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
ہم جب کوڑا کرکٹ جلاتے ہیں۔ صنعتوں اور گاڑیوں سے دھواں نکلتا ہے تو اس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن اکسائیڈ کی بڑی مقدار ذرات کی شکل میں ہوا میں شامل ہو جاتی ہے۔ سورج کی کرنیں جب ان ذرات پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ سردیوں میں ہوا کی رفتار جب قدرے کم اور نا ہونے کے برابر ہوتی ہے تو دھند اور دھواں جمنے لگتا ہے پھر نتیجہ سموگ کی شکل میں نکلتا ہے۔ سموگ سے دمہ یعنی سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آنکھوں میں جلن اور گلے میں خراش محسوس ہوتی ہے۔ سموگ نزلہ، زکام اور پھیپھڑوں میں انفیکشن کا باعث بھی بنتی ہے۔ سموگ سے انسان ہی متاثر نہیں ہوتے، پودوں کی افزائش بھی بہت متاثر ہوتی ہے۔ جنگلوں اور فصلوں کو بھی سموگ سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے۔
سموگ انسانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ بظاہر اس کے اثرات فوری نظر نہیں آتے لیکن سموگ کسی بھی شخص کو کسی موذی مرض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ جیسے کہ پھیپھڑوں (ٹی بی) کی بیماری یا کینسر کا ہونا۔ سموگ ان لوگوں کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہے جو سانس (دمہ) کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ سموگ انسانوں کو ہی نہیں نوزائیدہ پودوں کو بھی ہلاک کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔
پاکستان کے شہر ہی اس سے متاثر نہیں اب سموگ کے اثرات ہندوستانی پنجاب اور دہلی تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ صوبے کی چیف ایگزیکٹو مریم نواز کا کہنا ہے، بعض اقدامات کے علاوہ بارش کا ہونا اس وبا کا آخری حل ہے۔ انہوں نے چینی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے سب سے آلودہ شہر لاہور میں مصنوعی بارش کی بھی بات کی۔ لیکن ان کا یہ وعدہ ابھی تک ایفاءنہیں ہوا۔
چند روز سے چیف منسٹر صاحبہ غیر ملکی دورے پر ملک سے باہر ہیں۔ جس پر اپوزیشن کے رہنما اور کچھ ناقدین انہیں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ان سب کا کہنا ہے سموگ نے پنجاب کی جو حالت کر رکھی ہے، جس طرح کی آفت کا اسے سامنا ہے ایسے میں پنجاب چھوڑ کر وہ غیر ملکی دورہ پر ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے متعلق بھی کہا جا رہا ہے صوبے میں موجود نہیں، چیف منسٹر نہ ہو تو ان کی عدم دستیابی پر سارے نظم و نسق کا ذمہ دار چیف سیکرٹری ہوتا ہے۔ مگر ان کی عدم دستیابی پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ اب مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
سموگ کی عفریت نے پنجاب میں جس طرح پنجے گاڑھ لیے ہیں اس سے تمام تر کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے سموگ کے باعث سکولوں اور کالجوں کو ایک ہفتہ سے بھی زیادہ عرصہ کے لیے بند کر رکھا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی حکم دیا ہے کہ مارکیٹیں، تمام شاپنگ مالز، اور بازار رات آٹھ بجے کے بعد بند کر دئیے جائیں۔ پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرایا جا رہا ہے۔
فضائی آلودگی صرف ایشیائی ملکوں ہی میں نہیں، مغربی ملکوں میں بھی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ایشیائی ملکوں میں پاکستان، بھارت، افغانستان اور چین شامل ہیں۔ تاہم چین نے ایسی پالیسز متعارف کرائی ہیں جن کے ذریعے فضائی آلودگی پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ سموگ کے ہی حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایک رپورٹ میرے سامنے ہے جس نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ 10لاکھ سے زیادہ بچوں کی صحت کو سموگ سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ جس پر قابو پانے کے لیے فضائی آلودگی میں کمی لانے کی فوری اور مو¿ثر کوششیں کرنا ہوں گی۔
پاکستان میں یونیسف کے نمائندے کا کہنا ہے لاہور اور ملتان میں گزشتہ ہفتے فضائی آلودگی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دونوں شہروں کی فضا عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیار سے سو گنا زیادہ آلودہ ریکارڈ کی گئی۔ ان حالات میں بچوں سمیت سینکڑوں لوگ بیمار پڑ گئے ہیں۔ یونیسف کا کہنا ہے ان شہروں میں فضائی آلودگی اس قدر شدید ہے کہ خلاءسے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سموگ سے بچنے کے لیے بعض احتیاطی تدابیر کی انتہائی ضرورت ہے۔ منہ اور ناک پر ماسک کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشوں کی عینک استعمال کرنی چاہیے۔ ماسک کا استعمال نہ صرف سموگ سے بچاتا ہے بلکہ اس سے کورونا جیسے موذی مرض سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر پینے سے سموگ کے مضر اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے سے بھی فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو الیکٹرک بسوں، ٹرینوں اور میٹروسسٹم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں۔ ا س سے نہ صرف ٹریفک کا دباﺅ کم ہو گا بلکہ گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں سے خارج ہونے والی آلودگی بھی کم ہو گی۔
سموگ کے صحت پر ہی نہیں۔ تعلیم اور کاروبار پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب ہمیں شعوری طور پر جاگنا ہے اور سموگ کے خلاف اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ جہاں جہاں فضائی آلودگی پھیلانے والے عنصر موجود ہیں۔ حکومت کے ساتھ مل کر ان کا خاتمہ کرنا ہے۔ تاکہ اپنے شہروں اور اپنی نسلوں کو آلودگی کے اس عفریت سے بچا سکیں۔ حکومت کے کرنے کے لیے جو کچھ ہے وہ حکومت کرے اور جو کام ہمارے کرنے کا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ تاکہ ہم 2025ءکو اپنے ہر شہر کو آلودگی سے پاک اور صاف ستھرا دیکھ سکیں۔