سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت یقینا امریکہ اور دنیا کی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ہے اور ٹرمپ کی جیت امریکہ کا وہ پہلا الیکشن بن گیا ہے ،جس کے بعد امریکہ کے دونوں ایوانوں کی اکثریت صدر کی حکمران جماعت کے پاس چلی گئی ہے اور یقینا اس پیشرفت کے بعد ٹرمپ امریکہ کے ایک طاقت ور صدر کے طور پر سامنے آئیں گے۔نہ صرف دونوں ہاوس ان کے کنٹرول میں ہوں گے بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی امریکی صدر کے زیر اثر ہو گی ،یہ شاید تاریخ میں پہلی بار ہو ا کہ امریکی صدر کو دونوں ہاوسز کی اکثریت حاصل ہو گی اور جو عام حالات میں چیک اینڈ بیلنس اور کچھ پابندیاں امریکی صدر پر عائد ہوتی ہیں ٹرمپ ان سے بھی مکمل طور پر آزاد ہوں گے۔یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد دنیا کو جن گھمبیر حالات میں دکھیلا جا رہا تھا ،ان حالات کے سدباب کا کچھ بندوبست ہو جائے اور دنیا میں ہمیں ایک ٹھراﺅ اور امن دیکھائی دے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے سے ہی مشرق وسطی میں فلسطین کی جنگ جاری ہے جس میں کہ نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے ،اسرائیل کو ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اس خطے پر مسلط کر دیا گیا ہے ، جو کہ سراسر ایک ناانصافی ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ،فلسطینی اپنے آپ کو دنیا میں غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں ان کی نسل خطرے میں ہے ،اور بد ترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور اگرمسلم امہ کے جو حالات ہیں وہ اسی طرح کے رہتے ہیں تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ جب فلسطینی ہی نہیں رہے گا تو پھر فلسطین کا سوال کس نے کرنا ہے ،ابھی حالیہ دنوں میں ہی عرب اور مسلم ممالک کا فلسطین کے معاملے پر سمٹ ہوا اور اجلاس میں لفاظی کے علاوہ او ر کچھ نہیں تھا ،کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے اور نہ ہی عملی اقدامات لینے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنائی گئی ، اس حوالے سے مسلم ممالک کو سنجیدہ اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔فلسطین کے معاملے پر ایران کو ہی لیڈ رول دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ایران ہی وہ واحد مسلمان ملک ہے جس نے کہ فلسطینیوں کی صیح معنوں میں مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ باقی تمام ممالک ایران کی پشت پناہی کریں تو کچھ امید پیدا ہو سکتی ہے۔جس طرح سے امریکہ نے ہمارے ایک ایک لیڈر کو چن چن کر مروایا ہے ،چاہے وہ شاہ فیصل ہو یا ،معمر قذافی ،شام کے لیڈر ہو عراق کے ،یا پھر بھٹو صاحب ہو ں ان کو جس انداز سے ختم کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام معاملات میں ان ممالک کے اندر کے عناصر ہی شامل رہے ہیں۔جب تک کہ مسلم امہ اجتماعی طور پر فلسطین کا ساتھ نہیں دیتی ہے تب تک لاشیں گرتی رہیں گی اور ہم رونا بھی نہیں رو سکیں گے۔ہمارا تو حال یہ ہو گیا ہے کہ رونا بھی ہم چھپ چھپ کر روتے ہیں۔کم از کم برملا تو اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ماتم کو صرف تقریروں تک محدود نہ کریں۔تقریریں کرنے اور بڑھکے مارنے سے فلسطین کا کچھ نہیں ہونا ہے۔اور نہ ہی فلسطینیوں کو کچھ مل سکتا ہے۔مسلم دنیا کے اندر ایک تقسیم تو موجود ہے اور اس تقسیم کو ختم کیے بغیر معاملات کا بہتر ہونا مشکل ہے۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا بھر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ،اس جنگ کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت شدید متاثر ہو ئی اور ممالک کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا اور حالات جس جانب جا رہے ہیں خدشہ تھا کہ کہیں تا ئیوان کے معاملے پر چین کے ساتھ جنگ نہ چھیڑ دی جائے لیکن اب ایک امکان پیدا ہوا ہے کہ حالات کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔بہر حال فلسطین کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان ہے اور پاکستان بھی بہت ہی زیادہ مسائل کا شکار رہا ہے۔ہمارا ملک خود دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔بڑے بڑے سانحات ہوئے ،بہت جھٹکے لگے لیکن ہم نے سبق نہیں سیکھا اور غلطیوں پر غلطیاں دو ہراتے ہی رہے اور اس سب بے یقینی اور افراتفری میںملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہتا چلا گیا۔ہم نے کبھی ایک قوم بن کر نہیں سوچا نہ ہی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کو ئی اقدامات کیے۔ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم تاریخ سے کو ئی سبق نہیں سیکھتے اور اس کی وجہ سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔جب تک عوام کو سامنے نہیں لاتے ہیں تب تک جمہوریت ہی ناکام ہو گی اور مسائل بڑھتے ہی رہیں گے ،حقیقی جمہوریت کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔اسی سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے اور مسائل حل ہو سکتے ہیں۔عوام کی رائے کو نہایت ہی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔عوام کی رائے کو وزن دینا چاہیے اور یہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے ،کہ عوام کی رائے کو اہمیت دے۔اگر اسٹیبشلمنٹ اپنی سوچ کو عوام پر مسلط کرے گی تو یہ سوچ غلط ہے اور اس سوچ کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے بلکہ اس پالیسی کا جو نتیجہ برآمد ہو گا ہو شاخسانہ ہو گا ،اس سے بہر حال بچنا چاہیے اور جمہوری ملک میں عوام کی رائے کا احترام لازمی کرنا چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے ،جس حکومت پر عوام کا اعتماد ہو وہی حکومت عوام کو ڈیلور بھی کرسکتی ہے۔بہر حال عوام کو قانونی طور پر ووٹ کے ذریعے اپنے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار دینا ہو گا ،تاکہ مستقبل کو روشن بنایا جاسکے۔