شاہ محمود قریشی کافی وقت سے خاموش تھے اور اب وہ بولے ہیں تو انہوں نے اپنی ہی جماعت کی پالیسی پر سوال اٹھایا ہے بنیادی طور پر یہ سوال بہت معنی خیز ہے، ان کی گفتگو میں کئی سوالات ہیں، شکوہ بھی ہے اور غلط حکمت عملی کی طرف اشارہ بھی ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی کی آزاد قیادت کی ناقص سیاسی حکمت عملی کو انہوں نے بے نقاب ضرور کیا ہے۔ میں تو ہمیشہ لکھتا رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت میں وہ دم خم نہیں ہے نہ یہ سنجیدہ سوچ رکھتے ہیں نہ انہیں کوئی سنجیدہ سمجھتا ہے نہ انہیں کوئی سنجیدہ لیتا ہے، یہ سب کسی اور نام کے سہارے سیاست کر رہے ہیں۔ اس حد تک سیاسی سوچ بچار اور سمجھ بوجھ سے عاری ہیں کہ کسی کا نام مناسب استعمال کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ ویسے تو جو باہر پریس کانفرنسوں میں مصروف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ عقل کل ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو بولنا پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں بیرسٹر گوہر، وقاص اکرم، سلمان اکرم راجہ اور عمر ایوب سے گزارش ہے ہم ڈیڑھ سال سے جیلوں میں ہیں۔ لیڈر شپ کے پاس وقت اور مہلت ہے تو کسی دن ہمارے پاس بھی تشریف لائیں ۔ اگر باہر بیٹھی لیڈر شپ ہمارے پاس آتی ہے تو ہو سکتا ہے کوئی بہتر مشورہ دے سکیں۔ پارٹی لیڈرشپ یاسمین راشد، محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کا نقظہ نظر جاننے کی کوشش کرے۔ میرا چالیس سالہ سیاسی تجربہ ہے پارٹی قائدین سے گزارش ہے سیاسی جماعتوں کو انگیج کریں، آئین کی بالادستی کے لیے کم سے کم ایجنڈے پر یکسوئی بنانے کی کوشش کریں۔
اب یہ وہ باتیں ہیں جو باہر والوں کو کڑوی لگیں گی کیونکہ وہ تو ہر وقت اڈیالہ جیل کی طرف دیکھتے رہتے ہیں انہیں صرف اور صرف اس جگہ سے مطلب ہے جہاں سے ملاقات کے بعد ہیڈ لائنز میں جگہ ملنی، اخبارات میں صفحہ اول پر تصویر شائع ہو گی، حالات حاضرہ کے پروگراموں میں مدعو کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی آزاد قیادت کو صرف اس ملاقات سے غرض ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی اس میڈیا ٹاک میں دل جلا کے سر عام رکھ دیا ہے۔ کاش کہ یہاں سے کوئی روشنی پھیلے، آزاد قیادت کو اسیروں کا خیال آئے اور وہ ان قیدیوں سے بھی ملاقات کریں، ان کے تجربے سے بھی استفادہ کرے، پی ٹی آئی کو اگر کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا ہے تو کم از کم اس انداز میں بات چیت تو ضرور کریں کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی جماعت بات چیت تو کرے۔
پاکستان تحریک انصاف کی وہ قیادت جس کا ذکر شاہ محمود قریشی نے کیا ہے یہ ان کا بہت پرانا مسئلہ ہے، یہ بڑے بڑے بیانات دیتے ہیں، نہ ان کے پاس کوئی سیاسی سوچ ہے، نہ سٹریٹ پاور ہے نہ دیگر سیاسی جماعتوں میں ایسے تعلقات کہ کسی کو سیاسی بات چیت میں مصروف رکھیں، سیاسی بات چیت کریں، مسائل کا سیاسی حل نکالیں، سیاسی گفتگو کریں لیکن اب تک یہ سارے لوگ اس اہم کام میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ سب چاہتے ہیں اچانک منظر نامہ بدلے اور یہ سارے لوگ بالخصوص جن کا ذکر شاہ محمود قریشی نے کیا ہے وہ اپوزیشن کے بجائے حکومت میں ہوں۔ ایسا ہو نہیں سکتا اور مشکل سیاسی حالات سے کیسا نکلنا ہے یہ صلاحیت موجودہ آزاد قیادت میں نہیں ہے۔ یہ کسی کو با آسانی قید تو کروا سکتے ہیں، یعنی کسی کی قید کا بندوبست تو کر سکتے ہیں لیکن کسی کی رہائی کے لیے کچھ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات میں اس سے بہت موثر سیاسی حکمت عملی اختیار کی جا سکتی تھی لیکن پی ٹی آئی کی آزاد قیادت اس میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
اب جو کچھ یہ باہر بیٹھے لوگ کر رہے ہیں یہ اپنے ہی بیانیے کو دفن کرنے کے درپے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکہ سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور یہ سارے ادھر دیکھ رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے اور جانے بغیر کہ ایسی کسی بھی تحریک، پیشرفت، یا تبدیلی سے سیاسی مقصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب مل کر ہر اس عمل کی مخالفت کرتے لیکن یہ سب تو ڈھول بجا رہے ہیں۔ چند روز قبل لطیف کھوسہ کی خوشیاں سنبھالی نہیں جا رہی تھیں کہ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹیلیویژن پر ہی نعرے لگائیں کہ جدوں ٹرمپ آئے گا لگ پتہ جائے گا۔
امریکا کے چھیالیس ارکان کانگریس نے صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایوان نمائندگان کی قرارداد پر اقدامات کرنیکی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی دیگرسیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے ہنگامی بنیاد پر وکالت کی جائے۔ یو این ورکنگ گروپ کی رپورٹ کی روشنی میں بانی پی ٹی آئی اور دیگرسیاسی قیدیوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط کے متن کے مطابق پاکستان میں 2024 کے ناقص الیکشن کے بعد انسانی حقوق پامال کیے گئے، پاکستان کی اہم سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، مختلف حربوں کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں نے آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔
الیکشن میں خدشات سے متعلق رپورٹس کو حکومت نے شائع ہونے سے روکا، بانی سمیت دیگر رہنماؤں کو مسلسل پابند سلاسل رکھنا سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شائع خط پر 46 ارکان کانگریس کے دستخط ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بھی امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا۔
اب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے ایسے کسی بھی خط کی حمایت کا مطلب ہے کہ آپ بیرونی مداخلت کو دعوت دے رہے ہیں حالانکہ آپ کے پاس اندرونی طور پر رہتے ہوئے بات چیت کے ذرائع موجود تھے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اب اگر امریکہ یا کسی بھی اور راستے کو اختیار کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اسے اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیں، یہ اس طرح سے غیر ملکی امداد نہیں لینی چاہیے، آج پاکستان تحریک انصاف ہے کل کوئی اور سیاسی جماعت بھی ہو سکتی ہے سیاسی جماعتوں کو سیاسی راستے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی کانگریس اراکین جیسا دوغلا اور بے رحم تو کوئی ہو نہیں سکتا انہیں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تکلیف ہو رہی ہے، ایک آزاد ملک جس کی آبادی لگ بھگ پچیس کروڑ ہے، جہاں اس کی اپنی فوج ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، نظام عدل ہے، جمہوریت قائم ہے، امن و سکون ہے وہاں انہیں سب خراب نظر آ رہا ہے لیکن فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی خون بہایا جا رہا ہے وہاں انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ انسانیت کے قتل عام پر خاموش رہنے والوں کے ایسے کسی بھی خط کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے ، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چار زخمِ غمِ دید تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !