پہلے زمانوں والازمانہ کیسا عجیب بلکہ غریب زمانہ تھا۔ فلمی اداکارائیں لپک لپک کے گانا گاتی تھیں مگر مکمل طورپر کپڑوں کے اندر ہوتی تھیں گانے کا اسقدر انتظار رہتا کہ ریڈیو پر فرمائشیں چلتیں اور گھنٹہ بھر لوگوں کے نام سنوائے جاتے کہ تیر پہ تیرچلائوں بچ کے نہ کوئی جائے، کیلئے پاکستان اور پاکستان سے باہر ان شب بیداروں نے اپنے نام بھیجے ہیں اور رات گئے تک اللہ ہو کی بجائے ہوکے عالم میں آنکھیں بند کئے اَکھیوں سے تیر چلتے دیکھتے اور اس طرح سے آجکل کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے والے ہم وطنوں کی طرح بالآخر ریڈیو چلتا رہتا اور وہ خواب غفلت میں رہتے ہوئے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہتے اور یوں اسکی رات کی کارگزاری کا صلہ سورج نکلتے ہی بزرگوں کی گالیوں اور کوسنے سے ہوتا۔ وقفے وقفے سے اور مساجد اور مصلّے پر بیٹھنے کے باوجود بیچاری ماں بقدر ہمت و استطاعت اپنی مراعت سمجھ کر تھوڑی تھوڑی گالیوں کی خیرات کو دھیان میں لائے بغیر اپنا دھیان اوپر لگائے رکھتی اور اگر خدانخواستہ گھر میں سے کوئی نوجوان فلم دیکھنے سینما چلا جاتا تو سینما میں فلم کے دوران لڑکے کا نام لیکر بلایا جاتا اور پھر گھر خواہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہوتا سواری کی بجائے لڑکے کے سر پر سوار ہوکر گھر تک اُسے ماں کے دودھ کی بجائے چھٹی کا دودھ یاد دلایا جاتا کیسے دقیا نوسی زمانے تھے اب تو نماز و اذان فجر سے پہلے، مُجرے کا رنگ روپ دھارنے والی شامِ غزل میں مست و الست، وقت وضو جام وسو میں غرق، جو ہر وقت رقص ابلیس میں مصروف رہتا تھا اسے اس بہترین کارکردگی پہ گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے۔ کہاں وہ شریف گھرانوں کی قدامت پسند اولاد جو چھپ چھپا کے اور سات پردوں میں مستور ہوکر صرف تیر چلانے والی کی شکل پردہ سکرین پہ دیکھنے کی غرض سے سر عام بے عزت ہوتی۔اس زمانے کے لڑکوں کا یہ حال تھا۔ مگر اب تو بے باک گھرانے کی لڑکیاں مدقوق و مریل اجسام کے ساتھ کیٹ واک کرتے ہوئے جن کی دعا رب قبول فرمالیتا ہے کہ دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس، نزاعی کیفیت میں نینوں کے تیر چلا رہی ہوتی ہیں اور ’’دیدے پھاڑ‘‘ کر انہیں دیکھنے والے خواتین و مرد گھنٹوں بیٹھ کر اپنی آخرت کا بیڑہ غرق کراتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اُن کا باوا اکبر تو کب کا غیرت قومی میں زمین میں گڑ گیا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن، پیر پگاڑہ، الطاف حسین، آصف زرداری اور شریف گھرانے کے نواز شریف جیسے سیاستدان ایک دوسرے پہ زبان کے تیر رات دن چلا رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں کوئی پیر ہے تو کوئی مولانا مگر یہ نہ کسی کو نہیں کرتے۔ دراصل یہ ’’ بریکنگ نیوز‘‘ کی ایجاد کا زمانہ ہے جو کروڑوں عوام کا سکون برباد کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔مگر سیاستدان ہیں کہ اس عمر اور اس حال میں بھی فعال ہیں۔ اور باز نہیں آتے، ملک و قوم کے یہ ہونہار ساٹھ، ساٹھ، سالہ بچے، جن میں ایک آدھا لڑکپن کی عمر میں یعنی اسی سال پہ بھی پہنچ گیا ہے۔ مگر بچہ بچہ ہی ہوتا ہے۔سنجیدگی تو آتے آتے وقت لیتی ہے۔ بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہوجائیگا۔ ڈر تو فقط اتنا ہے کہ پچاس سال کی رفاقت کے بعد بیو ی کو طلاق دے کر اپنا گھر برباد کرا لینے والا کروڑوں لوگوں کے گھر کو نہ برباد کردے۔ مگر اللہ پہ امید رکھنی چاہیے اگر ہمارے ہمسایے ممالک میں’’ افغان باقی کہسار’’ باقی ہے یہاں بھی ہمارا ملک زبانوں کے تیر، بلکہ نشتر لگانے، زلزلوں، سیلابوں اور کبھی خشک سالیوں کے باوجود بھی باقی ہے۔اغیار کی بجائے اپنوں پہ نشتر چلانے والے اپنا کردار عبدالرب نشتر والا کیوں نہ بناتے؟ شاید یہ سیاسی’’ نشانہ باز‘‘ اس وقت تک باز نہ آئیں۔کہ جب اس کا م پہ نامور، تیر اندازوں کی تیر کمانوں کو خاموش کرانیوالا، خرابی کو درست کرنیوالے کے حکم پہ اچانک آپہنچے کیونکہ اسے اپنے حبیبؐ کی اُمت سے بہت پیار ہے اور ہمیں صرف اسی وقت کا انتظار ہے!
’’تیر پہ تیر چلائیں۔ بچ کے نہ کوئی جائے‘‘
Oct 17, 2010
پہلے زمانوں والازمانہ کیسا عجیب بلکہ غریب زمانہ تھا۔ فلمی اداکارائیں لپک لپک کے گانا گاتی تھیں مگر مکمل طورپر کپڑوں کے اندر ہوتی تھیں گانے کا اسقدر انتظار رہتا کہ ریڈیو پر فرمائشیں چلتیں اور گھنٹہ بھر لوگوں کے نام سنوائے جاتے کہ تیر پہ تیرچلائوں بچ کے نہ کوئی جائے، کیلئے پاکستان اور پاکستان سے باہر ان شب بیداروں نے اپنے نام بھیجے ہیں اور رات گئے تک اللہ ہو کی بجائے ہوکے عالم میں آنکھیں بند کئے اَکھیوں سے تیر چلتے دیکھتے اور اس طرح سے آجکل کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے والے ہم وطنوں کی طرح بالآخر ریڈیو چلتا رہتا اور وہ خواب غفلت میں رہتے ہوئے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہتے اور یوں اسکی رات کی کارگزاری کا صلہ سورج نکلتے ہی بزرگوں کی گالیوں اور کوسنے سے ہوتا۔ وقفے وقفے سے اور مساجد اور مصلّے پر بیٹھنے کے باوجود بیچاری ماں بقدر ہمت و استطاعت اپنی مراعت سمجھ کر تھوڑی تھوڑی گالیوں کی خیرات کو دھیان میں لائے بغیر اپنا دھیان اوپر لگائے رکھتی اور اگر خدانخواستہ گھر میں سے کوئی نوجوان فلم دیکھنے سینما چلا جاتا تو سینما میں فلم کے دوران لڑکے کا نام لیکر بلایا جاتا اور پھر گھر خواہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہوتا سواری کی بجائے لڑکے کے سر پر سوار ہوکر گھر تک اُسے ماں کے دودھ کی بجائے چھٹی کا دودھ یاد دلایا جاتا کیسے دقیا نوسی زمانے تھے اب تو نماز و اذان فجر سے پہلے، مُجرے کا رنگ روپ دھارنے والی شامِ غزل میں مست و الست، وقت وضو جام وسو میں غرق، جو ہر وقت رقص ابلیس میں مصروف رہتا تھا اسے اس بہترین کارکردگی پہ گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے۔ کہاں وہ شریف گھرانوں کی قدامت پسند اولاد جو چھپ چھپا کے اور سات پردوں میں مستور ہوکر صرف تیر چلانے والی کی شکل پردہ سکرین پہ دیکھنے کی غرض سے سر عام بے عزت ہوتی۔اس زمانے کے لڑکوں کا یہ حال تھا۔ مگر اب تو بے باک گھرانے کی لڑکیاں مدقوق و مریل اجسام کے ساتھ کیٹ واک کرتے ہوئے جن کی دعا رب قبول فرمالیتا ہے کہ دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس، نزاعی کیفیت میں نینوں کے تیر چلا رہی ہوتی ہیں اور ’’دیدے پھاڑ‘‘ کر انہیں دیکھنے والے خواتین و مرد گھنٹوں بیٹھ کر اپنی آخرت کا بیڑہ غرق کراتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اُن کا باوا اکبر تو کب کا غیرت قومی میں زمین میں گڑ گیا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن، پیر پگاڑہ، الطاف حسین، آصف زرداری اور شریف گھرانے کے نواز شریف جیسے سیاستدان ایک دوسرے پہ زبان کے تیر رات دن چلا رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں کوئی پیر ہے تو کوئی مولانا مگر یہ نہ کسی کو نہیں کرتے۔ دراصل یہ ’’ بریکنگ نیوز‘‘ کی ایجاد کا زمانہ ہے جو کروڑوں عوام کا سکون برباد کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔مگر سیاستدان ہیں کہ اس عمر اور اس حال میں بھی فعال ہیں۔ اور باز نہیں آتے، ملک و قوم کے یہ ہونہار ساٹھ، ساٹھ، سالہ بچے، جن میں ایک آدھا لڑکپن کی عمر میں یعنی اسی سال پہ بھی پہنچ گیا ہے۔ مگر بچہ بچہ ہی ہوتا ہے۔سنجیدگی تو آتے آتے وقت لیتی ہے۔ بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہوجائیگا۔ ڈر تو فقط اتنا ہے کہ پچاس سال کی رفاقت کے بعد بیو ی کو طلاق دے کر اپنا گھر برباد کرا لینے والا کروڑوں لوگوں کے گھر کو نہ برباد کردے۔ مگر اللہ پہ امید رکھنی چاہیے اگر ہمارے ہمسایے ممالک میں’’ افغان باقی کہسار’’ باقی ہے یہاں بھی ہمارا ملک زبانوں کے تیر، بلکہ نشتر لگانے، زلزلوں، سیلابوں اور کبھی خشک سالیوں کے باوجود بھی باقی ہے۔اغیار کی بجائے اپنوں پہ نشتر چلانے والے اپنا کردار عبدالرب نشتر والا کیوں نہ بناتے؟ شاید یہ سیاسی’’ نشانہ باز‘‘ اس وقت تک باز نہ آئیں۔کہ جب اس کا م پہ نامور، تیر اندازوں کی تیر کمانوں کو خاموش کرانیوالا، خرابی کو درست کرنیوالے کے حکم پہ اچانک آپہنچے کیونکہ اسے اپنے حبیبؐ کی اُمت سے بہت پیار ہے اور ہمیں صرف اسی وقت کا انتظار ہے!