غالب نے کہا تھا
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
شاعرانہ تعلی سے قطع نظر اس شعر میں ایک بہت بڑی حقیقت پنہاں ہے۔ آدم علیہ السلام تو حکم خداوندی سے جنت بدر ہوئے تھے۔ انسان کی انسان کے ہاتھوں تذلیل زیادہ رسوا کن اور تکلیف دہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ تو بے حد رحم کرنے والا کبھی نہ کبھی معافی مل ہی جاتی ہے لیکن تار یخ معاف نہیں کرتی شیکسپیئر نے کہا تھا:
The evils that men do live after them:
(انسان جو غلطیاں برائیاں اور ناجوازیاں کرتا ہے، وہ اس کا مرنے کے بعد بھی پیچھا کرتی ہیں....) آدم علیہ السلام ابلیس کے بہکاوے میں آگئے اور ممنوعہ پھل چکھ بیٹھے گو بالآخر معافی تو مل گئی لیکن میاں بیوی کو ایک کڑے امتحان سے گذرنا پڑا۔ ایک روایت کے مطابق بی بی حوا کو جدہ میں اتارا گیا تھا۔ اس کے لغوی معنی بھی یہی ہیں۔ بظاہر ایک چھوٹی سی غلطی کی اتنی کڑی سزا! کہاں خلد بریں کی تازہ معطر ہوا اور کہاں دشت تنہا کہاں حور و غلماں اور کہاں جنگل بیاباں، چشم تصور رونگھٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ نازو نعم میں پلی، کوثر و تسنیم میں دھلی نوجوان لڑکی نے کس طرح بے رحم دھرتی کو پہلی بار دیکھا ہو گا۔ باد صحرا کے کتنے تھپیڑے کھائے ہونگے۔ آتش فشاں ظالم سورج کی کرنوں سے کیا باتیں کی ہونگی! حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سمندر سے کیا مانگا ہو گا:
Water water everywhere and not a drop to drink.
رحم میرے مالک رحم، رحم میرے پروردگار! ایک جملہ تھا جو حرزِ جاں بن گیا تھا۔ ایک بے بس آنسو تھا جو پھیل کر سمندر ہو گیا۔ بالآخر دعائیں قبول ہوئیں۔ خطائیں معاف ہوئیں اور دررحمت کھل گیا۔سینہ چاکان چمن سے آملے سینہ چاک اس دھرتی پر پہلی بار آدم و حوا نے آہوں اور سسکیوں کے درمیاں ایک دوسرے کو کس طرح دیکھا ہو گا!اولاد آدم سے بھی بے شمار غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ انسان خطا کا پتلا جو ٹھہرا لیکن ہمارے شاہ ملتانی نے تو حد ہی کر دی تھی ایک اخباری خبر کے مطابق وزیر اعظم ہاﺅس سے تو ذلیل ہو کر نکلے تھے۔ اب قصر صدارت سے بھی انہیں یک بینی و دوگوش نکال باہر کیا گیا ہے۔ تاسف اور تذلیل یکجا ہو گئی ہیں۔ یوسف رضا کی مفروضہ قربانیوں کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ پہلے زرداری کی تعریف کرتے کرتے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ اب دبے دبے الفاظ میں تنقید شروع کر دی ہے۔ اپنے حالیہ بیان میں فرماتے ہیں جو حکومت میرے بیٹے کو گرفتاری سے نہیں بچا سکتی اس سے مجھے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ ہماری یادداشت میں یہ دوسرا واقعہ ہے اس سے پہلے ایک جج صاحب کو بھی وزیراعظم ہاﺅس سے اسی طرح دھکے دے کر نکالا گیا تھا۔وہ تھے تو اعلیٰ عدلیہ کے رکن لیکن سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کو ”جزوایمان“ سمجھتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں جب ماڈل ٹاﺅن جاتے تو اکثر مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ گاڑی سے اترتے ہی ناک پر رومال رکھ لیتے۔ ایک دفعہ جب ہم گیٹ میں داخل ہو رہے تھے تو ڈیوٹی پر موجود سپاہی نے ٹھک سے سلوٹ مار کر کہا ”سر! میاں صاحب گھر میں موجود نہیں! اس کی آنکھوں میں ایک شریر سی مسکراہٹ تیر رہی تھی کہنے لگے اس بدبخت نے مجھے شناخت کیسے کیا ہے؟ عرض کیا آپ نے فارسی زبان کا وہ شعر نہیں سنا:
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم!
ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت نے میاں صاحب کے پاس مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ان دنوں وزیراعظم سندھ ہاﺅس میں ٹھہرا کرتا تھا۔ 9نمبر کمرہ میاں صاحب کے مالشیے کے لئے مختص تھا۔ انہیں 10 نمبر کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ جاتے ہی انہوں نے تمام خانسامے بدلوا دیئے کہنے لگے۔ بے نظیر کے بھرتی کردہ ہیں۔ کھانے میں زہر ملا سکتے ہیں۔ میاں صاحب کو امیر المومنین بنانے کا مشورہ بھی انہوں نے ہی دیا تھا۔ جنرل حمید گل ان دنوں ملتان میں کور کمانڈر تھے۔ میں وہاں ڈپٹی کمشنر تعینات تھا۔ ایک دن جنرل صاحب نے مجھے بلا کر کہا۔ اس جج کو کہو کہ وزیراعظم ہاﺅس چھوڑ دے ورنہ بہت خراب ہو گا.... جب میں نے پیغام پہنچایا تو بڑے جزبز ہوئے کہنے لگے۔ یہ وزیراعظم میرے بغیر کھانا نہیں کھاتا تم کیا فضول مشورہ دے رہے ہو۔ کچھ عرصہ بعد ہی اس فلک ناہنجار نے دیکھا کہ انہیں نہایت ڈرامائی انداز میں نکال دیا گیا ہے۔ میاں صاحب چین کے دورے پر گئے پلان کے مطابق چھوٹے صاحب نے انکے کمرے کو تالا لگوا دیا رات انہیں برآمدے میں گذارنی پڑی۔ صبح کو بہروں نے ناشتہ ”سرو“ کرنے سے انکار کر دیا۔ جب میریٹ ہوٹل میں ناشتہ کر کے نکلے تو سرکاری گاڑی کو (Wheel Clamp) لگا ہوا تھا، پیلی ٹیکسی پر بیٹھکر ائرپورٹ پہنچے لاہور آ کر انہیں حیرانی ہوئی، ان کا سامان ان سے پہلے پہنچ چکا تھا۔ہمارے سیاستدان ابلیس کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ اسے مدعو کر کے باقاعدہ مشورہ کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے دولت تو جس قدرسمیٹنی تھی سمیٹ لی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ عزت گنوا بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کی سزا تو محض ایک بہانہ ہے وگرنہ انہیں فارغ کرنے کا پروگرام بہت عرصہ پہلے ہی بن چکا تھا۔ ہمیں علم نہیں کہ یہ قصر صدارت کے کونسے حصے میں رہائش پذیر تھے لیکن مخالفین مصر ہیں کہ انہیں اس گوشے میں رکھا گیا تھا جہاں زرداری کے اونٹ اور گھوڑے ٹھہرا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے صاحب نے بے زبان جانوروں کی فریاد سن لی ہو اور ملے بغیر ملتانی کو فارغ کر دیا ہو۔
گذشتہ 65 سالوں میں جتنے بھی وزیراعظم آئے ہیں شاہ صاحب ان سے اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ انہوں نے کوئی ”کام“ بھی اکیلے نہیں کیا۔ سارے خاندان اور احباب کو شریک عمل رکھا ہے گو اعلیٰ عدلیہ نے ہر قدم پر ان کی سرزنش کی ہے لیکن یہ باز نہیں آئے۔ آتے بھی کیسے! وزارت عظمیٰ روز روز تو نہیں ملتی۔ بیوروکریسی سے بھی گلہ شکوہ بیجا ہے۔ ان کا کونڈا ہونے کے بعد اور تو اور ان کی کونڈی بھی دوڑ گئی ہے۔
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے!
Oct 17, 2012