بدھ ‘ 29 ذیقعد 1433ھ 17 اکتوبر2012 ئ

اہم شخصیت کی بیٹی سے تکرار پر بیکری ملازم پر تشدد‘ وزیراعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لے کر کارروائی کا حکم دیدیا۔
 ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ اگر کسی کے پاس تھوڑے بہت اختیارات آجائیں تو وہ خود کو قانون و آئین کے بالا سمجھنے لگتا ہے‘ حتیٰ کہ انکی اولاد یںبھی قانون کو کسی کھاتے میں نہیں رکھتیں۔ جس اہم شخصیت کی بیٹی کے ”اتھرے پن“ کا مظاہرہ کیمرے کی آنکھ کی مدد سے الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنا اور پوری دنیا کی نظروں میں آیا‘ اصلاح معاشرہ کیلئے میڈیا کے مستعد کردار کے باعث اس شخصیت سے بھی زمانے بھر کو آگاہی ہو گئی ہے کہ یہ حکمران طبقات میں شامل اہم شخصیت ہی ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ”وقوعہ“ کی میڈیا پر تشہیر ہونے کے باعث معاملہ کا نوٹس لے کر بیکری ملازم پر تشدد میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرادیا ہے مگر کیا یہ حکمران طبقات کیلئے سوچنے کی بات نہیں کہ انکی اولادیں خود ہی سرکش ہو رہی ہیں یا انکی تربیت کے زیر اثر ”اتھرے پن“ کے مظاہرے کر رہی ہیں؟
عوام تو حکمران اشرافیہ طبقات کے رویوں سے پہلے ہی عاجز آئے ہوئے ہیں‘ اگر اب انکی اولادوں نے بھی ملک اور عوام پر اپنی ملکیت کا حق جتانا شروع کر دیا توپھر عوام بھی اپنے رائے دہی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ان کا صفایا کرنے میں حق بجانب ہونگے۔ اس شخصیت پر جو حرف آنا تھا آچکا‘ اب اگر محتاط رہتے ہوئے ملک کی تمام اہم شخصیات قانون اور آئین پر عمل پیرا ہو کر معاشرے میں خود کو رول ماڈل بنائیںتو نہ صرف انکی آل اولاد‘ بلکہ عوام بھی مطمئن رہیں گے کہ انکے انتخاب کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔
٭....٭....٭....٭
آسٹریلوی بزرگ استاد چند ہفتوں میں سو سال کی عمر کو پہنچ جائینگے‘ ان کو دنیا کا بزرگ ترین استاد تسلیم کرلیا جائیگا‘ جو اب بھی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
حصول علم اور تعلیم کی روشنی پھیلانے کےلئے عمر کی کوئی حد نہیں‘ آسٹریلوی استاد جو سو سال کے ہونےوالے ہیں‘ اب بھی پڑھاتے ہیں‘ گویا یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ جو اہلِ علم کو ریٹائرڈ کردیا جاتا ہے‘ یہ بجا نہیں‘ کیونکہ علم کی حد مہد سے لے کر لحد تک جاری رکھنے پر اسلام بھی زور دیتا ہے۔ علم ایک ایسا جوہر ہے‘ جو وقت کے ساتھ بڑھتا اور پختہ ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں ایک استاد کو سو سال کی عمر میں ریٹائر نہ کرنا‘ ایک مثال ہے اور علم کی ابدیت کی دلیل۔ ہمارے ہاں ہر پیشے کے ساتھ علم کے پیشے والے کو بھی 60 برس میں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ گویا صاحبِ علم کو بھی لوہار‘ ترکھان سمجھ لیا گیا ہے جبکہ اس کا کام دماغی ہوتا ہے اور دماغ وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ عالم اور علم ہی کی قدردانی ہے کہ آج مغرب سے علم کا سورج طلوع ہوا ہے اور ساری دنیا کو روشن کر دیا ہے۔ اگرچہ شرپسند عناصر نے مغرب میں بھی علم کو تخریب کاری و دہشت گردی کیلئے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ علم ہم تک بھی پہنچا ہے اور ہمارے خطے میں بھی اسکے کرشمے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اساتذہ کہیں کے بھی ہوں‘ علم کو اچھی نیت کے ساتھ اچھے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بس یہ افسوسناک فرق ہے کہ مغرب نے اپنے استاد کو فکرِ معاش و غم روزگار سے آزاد کرکے عزت دی ہے جبکہ ہم نے جسے کہیں جگہ نہ ملی‘ اسے استاد بھرتی کرادیا اور وہ بھی سفارش کے زور پر‘ نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گئے اور ایک باوردی کانسٹیبل کو عزت کی نگاہ سے اور اپنے استاد کو بہ نظر حقارت سے دیکھا جاتا ہے‘ بلکہ ہمارے ہاں تک یہاں تک بھی کہہ دیا گیا کہ....ع
علموں بس کریں او یار!
٭....٭....٭....٭
نیب نے رینٹل پاور سکینڈل میں پانچ ارب روپے کی ریکوری کرلی‘ نیب نے وزارت داخلہ سے اس سکینڈل میں ملوث متعدد افسران کے نام بھی ای سی ایل میں داخل کرنے کی درخواست کر دی ہے۔
نیب نے بڑی بہادری اور چابکدستی دکھائی ہے مگر نیب میں ایک عیب رہ گیا کہ راجہ رینٹل کو اس اعزاز سے استثنیٰ دے دیا۔ ڈاکو پکڑ لینا اور انکے سردار کو نظرانداز کرنا‘ بڑی زیادتی ہے۔ اسی سکینڈل کے بعد ہی تو راجا کی آئی تھی بارات اور حکومت بند کمرے میں اکیلی ناچتی رہی تھی۔ چلو اچھا ہوا کہ قومی خزانے میں پانچ ارب روپے تو نیب واپس لے آئی۔
حضرت گیلانی کے ساتھ جو ہوا وہ حضرت پرویز اشرف کے ساتھ نہیں ہوا‘ خط لکھ دیا گیا لیکن یہ خط بھی وہ خط تو نہیں کہ....ع
انکے خط آنے لگے شاید کہ خط آنے لگے
نیب کو گیلانی کی ”باعزت“ واپسی کا واسطہ کہ وہ اپنے ہاتھ کچھ اور لمبے کرے تاکہ سبکدوش گیلانی کے دل کا بار بھی کچھ ہلکا ہو۔ دیکھئے سپریم کورٹ اس لکھے گئے خط کے متن کا کیا نوٹس لیتی ہے کہ یہ خط ہے یا گوری کی نتھ۔
یہ رینٹل سلسلہ ختم ہی کر دیا جائے اور اپنے وسائل سے ہنگامی بنیادوں پر بجلی حاصل کی جائے یا پھر ایران ہی سے سستی بجلی خریدنے کی کوشش کی جائے مگر ذرا یک چشم وائٹ ہاﺅس کی آنکھ سے بچا کر جس کا عکس ڈالر پر موجود ہے اور جب قوم کا تیل نکلتا ہے تو اس میں سے تیل برآمد ہوتا ہے۔ ڈالروں میں سے صرف پانچ ارب روپیہ کشید کرنا کوئی زیادہ بڑی کشید نہیں‘ البتہ کشیدہ کاری ہے۔ بہرحال نیب راجا رینٹل کو بھی پچھلی تاریخوں سے اس فہرست میں شامل کرے تو پھر نیب بالکل بے عیب ہے۔

ای پیپر دی نیشن