سلالہ سے ملالہ تک

ہم ایک ایسی جنگ میں گرفتار ہیں جو وبائی مزاج رکھتی ہے۔ یہ عالمی جنگ اسلام اور مسلمانوں کےخلاف چھیڑی گئی ہے۔ اسکے دو فریق ہیں۔ اوباما والا امریکہ، و نیٹو ایک طرف اور دوسری جانب دنیا کے مختلف محاذوں پر لڑنے والے راسخ العقیدہ مسلمان۔ درمیان میں پرائی بارات میں عبداللہ دیوانہ والے مسلمان امریکی محاذ پر پورا ولولہ لئے کمربستہ ہیں۔ یہ سیکولر مزاج رکھتے ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری کرتے ہیں۔ جنگ تو دہشت گردی کیخلاف ہے لیکن اس میں بھولے سے بھی اسرائیل کا تذکرہ نہیں آتا جو فلسطین پر دہشت گردی کا عالمی مجرم ہے۔ اس میں بھارت کی بات بھی نہیں ہوتی جو کشمیر پر دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ (اس کےلئے کوالیفائی صرف مسلمان کرتا ہے) اس جنگ کا تازہ ترین شکار ملالہ ہے۔ شاعر نے کہا تھا....
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
زندگی کے تمام معاملات میں پاسبان عقل کو ہمراہ رکھنا چاہئے۔ اسے چھوڑنے کے مواقع کے انتخاب میں ساری خرابی مضمر ہے۔ حالیہ واقعات عقل اور ہوش طلب ہیں ملالہ کے معاملے میں ٹھنڈے دل و دماغ سے ذرا سوچئے تو پورا منظر بدل جائےگا۔ ملالہ کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ ایک نوخیز گیارہ سالہ ناسمجھ بچی کو اس مقام تک پہنچانے والے ہاتھوں کے دستانے اتروا کر انگلیوں کے نشانات تلاش کیجئے۔ ایک خوفناک عالمی جنگ خطے میں جاری ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں کون سا بم اور میزائل تھا جو نہیں بویا گیا۔ مظالم کی کون سی قسم تھی جو آزمائی نہ گئی۔
مولانا صوفی محمد کے منہ میں الفاظ ڈال کراپریشن شروع کیا‘ جس میں 25 لاکھ قبائل کے مرد، عورتوں، بچوں کی دربدری، اندھا دھند کارروائی جس میں ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا۔ وہ لاشیں جن پر پرچی ہمراہ نتھی کی گئی کہ جو طالبان کا ساتھ دے گا اس کا انجام یہ ہو گا۔ عاصمہ جہانگیر، انسانی حقوق کمیشن تک چیخ اٹھے۔ انکی رپورٹیں پڑھ لیجئے۔
سوات میں اجتماعی قبریں منکشف ہوئیں۔ سوات کے ملالہ ہی کے ہم عمر وہ چھ نوخیز بچے جس کی لرزہ خیز وڈیو، یو ٹیوب پر سامنے آئی۔ جنہیں آنکھوں پر پٹیاں، لائن میں کھڑا کرکے گولیاں برسا کر بے رحمانہ مارا گیا۔ جس پر ماریانہ بابر نے بار بار مضامین لکھے۔ جس پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ اس پر نہ کوئی شہ سرخی لگی نہ کسی اینکر پرسن کے ضمیر پر ہتھوڑا برسا۔ نہ سول سوسائٹی نے انگڑائی لی، نہ موم بتیاں جلیں، نہ بینر لہرائے گئے۔ اس خوفناک منظرنامے میں گیارہ سالہ بچی کو خطرے کی راہ میں ڈالنے والے افراد بھی ذمہ دار ہیں۔ روسی میڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ملالہ کو شیر کے پنجرے میں ڈالنے والے بھی مجرم ہیں .... وہ بھی ذمہ دار ہیں جو کچھ سالوں سے شرانگیزی کی تیاری کر رہے تھے اور اب اس صورتحال سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلئے کوشاں ہیں“ 11 سال کی عمر کی بچی عالمی جنگی سیاست کے اکھاڑے میں اتاری گئی۔
 2009ءمیں نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ایڈم ایلک نے اسکی دو فلمیں بنائیں۔ اس عمر میں وہ ہالبروک سے مداخلت کی درخواست کر رہی ہے۔ وہ جنگ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے ہالبروک کی شہ رگ پھٹ گئی اور افغانستان کے حالات کے ہاتھوں مر گیا اس میں اس بچی کو استعمال کیا گیا؟ غیور قبائل میں عورت کے حیا کے معیارات (جسے سمجھنے سے ہمارا این جی او، بل بورڈ طبقہ کلیتاً قاصر ہے) کے پرخچے اڑانے کو یہ معصوم ناسمجھ بچی ہی ملی تھی؟ جو فیس بک پر 35 ہزار فین لئے ہوئے ہو جو (بہ عمر 14 سال) انٹرویو دیتے ہوئے سادگی سے یہ کہہ دے کہ میری سہیلی نے کہا تھا کہ تم وزیراعظم سے ملو گی تو میری طرف سے انہیں جپھی مارنا (Hug) ‘موم بتیاں، یوم ہائے دعا، پوری دنیا میں اسکے تذکرے کیا اسکے اس حال کا مداوا کر سکتے ہیں؟
نیویارک ٹائمز رپورٹر کی تصویر اسکے ہمراہ دیکھئے۔ چھوٹی عمر اور اپنے قد سے بہت بڑے بڑے کام کرتی وہ آج جس حال کو پہنچی وہ اسکے والد کے عزائم اور خواہشات کا عکاس ہے۔ یہ المیہ بڑی بے دردی اور محنت سے تراشا اور کیش کیا گیا ہے۔ وہ بیچاری ابھی سٹریچر پر پڑی ہوئی ہے اور چہار جانب سے شمالی وزیرستان آپریشن کے اعلانات، عزائم، مطالبے شروع ہو گئے؟
میڈیا کے بھونچال سے پاکستان ہلا مارا گیا۔ نشانے پر لینے والے، افغانستان سے براستہ سوات آئے اور آپریشن وزیرستان پر؟ لگے ہاتھوں دو ڈرون حملے ہوئے۔ دوسرے حملے میں دائرہ کار اورکزئی تک بڑھا دیا گیا۔ مدرسے پر حملہ جس میں اساتذہ، بچے اور استادوں کے خاندان نشانہ بنے، یہاں کل 26 شہادتیں ہوئیں۔ نہ ائرایمبولنس، نہ برستی آنکھیں، نہ دعائیہ تقریبات، نہ موم بتیاں، نہ میڈیا پر غیظ و غضب کے برستے تیر، نہ عیادت/ تعزیت کےلئے وزیراعظم، عسکری قیادت، نہ ہمدردی کے دو بول! علم دشمنی، طالبان کا جرم عظیم ہے!
سکولوں کو نشانہ بناتے ہیں (کیونکہ سوات میں سکول مورچے تھے) کیا مدارس میں علم نہیں ہوتا؟ پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا .... جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا (العلق) دنیا کی لاریب سچائی پر مبنی کتاب جو ”الحکیم“ کی بھیجی حکمت و دانائی کا سرچشمہ اور ”العلم“ ہے!
 اگر گندے نالے میں آکسفورڈ، کیمرج کا نصاب بہا دیا جائے تو قیامت کھڑی ہو جائے علم دشمنی کی۔ ملالہ مظلوم ہے تو اس پر ظلم میں وہ شامل ہیں جنہوں نے اسے قربانی کا بکرا بنایا۔ اپنے مذموم مقاصد کےلئے استعمال کرکے مگرمچھ کے آنسو بہاتا اوباما اس کی آڑ میں وزیرستان آپریشن اور ڈرون حملے کروا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان بچی کےلئے اوباما، لارا بش، کانگریس مین، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ، میڈونا، گرجے، مندر، سول سوسائٹی، سب دست بدعا ہیں۔
کیا المیہ ہے کہ ایک طرف لبیک کے قافلے سوئے حرم رواں دواں ہیں۔ رب کی چوکھٹ پر سادہ و رنگیں داستانِ حرم دہرائے جانے کو ہے۔ اللہ نہ کرے عافیہ کو اس تمام غلغلے اور طوفان کی خبر ہو کیونکہ امت کی اس مظلوم بیٹی کے لئے حلق سے آواز بھی نہیں نکلتی۔ یہاں تو سو چھید کی چھلنی والے بھی بول رہے ہیں۔ اس آڑ میں دھڑا دھڑ داڑھی والوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔
 پہلے خبر آئی چار اصل ملزم پکڑ لئے۔ اسکے باوجود اب تک پکڑے جانے والوں کی تعداد 120 ہو چکی ہے۔ امریکہ کی اس جنگ کے یہ سارے شاخسانے، المیے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ظلم پر مبنی یہ جنگ صرف پاکستان کے سہارے اب چل رہی ہے۔ اس سے نکل کر آئیے امریکہ کے قدموں تلے سے زمین سرک جائےگی ورنہ اللہ نہ کرے آپکے حصے سلالہ اور ملالہ ہی آئینگے۔

ای پیپر دی نیشن