حیدر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام سرکردہ راہ نماجمع تھے! اور ہر کوئی گیتوں کی لےَ کے بیچ اپنا ’عوامی‘ ہونا ثابت کر نے میں لگا تھا! مگر، یہاں بھی ہمارے شاعر بھائی جنابِ قمر الزمان کائرہ سب پر بازی لے گئے! اور کوئی اضافی حرکت کیے بغیر منظر پر چھا گئے! سُر اور تال کاسندھی امتزاج پنجاب کے مردانہ پن میں کچھ اور کھِل جاتا ہے!
یہ جلسہ سندھی قوم پرستوں کے تقابل میں ’شو آف پاور‘کا درجہ رکھتا تھا! اور لگ رہا تھا کہ شاید یہ جلسہ مولانا فضل الرحمن اور جنابِ الطاف حسین کے جلسوں سے کہیں بڑا ہو گا! مگر، تھوڑی دیر میں ہی احساس ہو گیا کہ یہ جلسہ درحقیقت پیپلز پارٹی کی عوامی قوت کا نہیں بلکہ اُن کی موجودہ سوچ کا مظاہرہ تھا! تقریباً ہر مقرر اپنے اپنے انداز میں جنابِ نواز شریف پر تیر برساتا اور اُنہیںہدف بناتا دکھائی دیتا رہا!
جنابِ نواز شریف نے ،تو، ابھی سندھ میں پاکستان مسلم لیگ نون کی سیاسی بساط بچھائی ہی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دل اُچھل کر حلق میں آ دھڑکنے لگا!اور وہ ’ہاہاکار ‘ مچائی! گویا لینے کے دینے پڑ گئے ہوں!
پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی نے فرمایا کہ اُن کی وزارتِ عظمیٰ کی قربانی ضائع نہیں گئی! اور صدارتی استثنیٰ تسلیم کر لیا گیا! اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے سندھ تقسیم نہیں ہو گا!لیکن ، انہوں نے پنجاب میں خانہ خانہ تقسیم کے باب میں کچھ نہیں کہا!
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے فرمایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھی قوم پرستوں کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہے! اور یہ لاکھو ں کا اجتماع سندھی قوم پرستوں اور اُن کے سرپرستوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچے کا درجہ رکھتا ہے!
اس جلسے کے پہلے مقررسے لے کر جنابِ شرجیل میمن تک سندھی قوم پرستوں کے سرپرستوں کا تذکرہ چلتا آ رہا تھا! رہی سہی کسر جنابِ سید قائم علی شاہ نے پوری کر دی! یہ سب لوگ جنابِ نواز شریف پر سندھی قوم پرستوں کی سرپرستی کا اور سندھی قوم پرستوں پر جنابِ نواز شریف کے پے رول پر ہونے کا الزام لگاتے رہے! مگر، وہ یہ حقیقت نہیں جھٹلا سکے کہ پاکستان مسلم لیگ قاف کے اراکین آئندہ انتخاب پاکستان مسلم لیگ نون کے فورم سے لڑنے کا ارادہ کر چکے ہیں! اور دونوں مسلم لیگوں کے کچھ راہ نما آج بھی اِن دھڑوں کے لیے ایک ہو جانے کا راستہ ہموار کرنے میں لگے ہیں!
سید قائم علی شاہ سے لاہوریوں کا تعارف 1970کے ابتدائی مہینوں میں ہوا! اور ہم نے بھی اُنہیں پہلی بار اِسی دَور میں دیکھا! یہ قصہّ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا! مگر، اُن کی تقریر سن کر احساس ہوا کہ اُن کا لہجہ ابھی تک اپنی جگہ سے ہِل جُل نہیں سکا! وہ آج بھی آتش بیاں ہیں! اور شعلہ افشانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے! ورنہ وہ ایک اچھے بھلے اجتماع پر ایک تھپڑ کی پھبتی نہ کس پاتے! بہرطور یہ اُن کا اندازِ بیاں ہے ! اوراِسی طرزِ بیاں کے سہارے اقتدا رکے ایوانوں تک پہنچنے کی ایک مثال ہے!
ہمارا خیال ہے کہ حیدرآباد کے جلسے میں جنابِ نواز شریف کا تذکرہ اس تسلسل کے ساتھ ہونا جنابِ نواز شریف کے لیے ایک بڑی کامیابی کا دیباچہ ہے! اور اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام انتخابات 2013کے دوران سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ایک دوسرے کے حقیقی مدِّمقابل ہوں گے!
اس سیاسی تناظر میں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی بھی متخالف سیاسی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں گی! لہٰذا سندھ سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے بیشتر منتخب اراکین اِنہی چار بڑی جماعتوں سے متعلق ہوں گے!
عام انتخابات 2013ایک خوش گوار تبدیلی لا سکیں گے؟ ہمارا خیال ہے کہ یقینا یہ ایک خوش گوار دَور ہو گا! اور تمام تر آتش فشانیاں بالآخر گل افشانیوں میں ڈھل جائیں گی! اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو! اور ہمارا یہ خواب بھی سچ نکل آئے!
شیخوبابا جنابِ ابرار حامد نے ہمیں ابھی فون پر ایک شعر سنایا ہے! آپ بھی سن لیں! آج کل یہ بابا ضرورت سے زیادہ سیاسی ہوتا چلا جا رہا ہے:
ہمارے ساتھ چلو ، تو ، ہمارے ہو کے چلو
ہے پیار کاٹنا ، تو، اس کے بیج بو کے چلو