ہمیں ڈرائے تاریکیوں سے وہ

کنٹرول لائن متواتر بھارتی اشتعال انگیزی کی زد میں ہے مگر حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ بالاآخر ’’دو ماہ‘‘ سے جاری سرحدی کشیدگی کے بعد منگل کو ’’پاک بھارت ملٹری ڈائریکٹرز‘‘ کا پہلا رابطہ ممکن ہو سکا۔ مزید براں ’’اقوام متحدہ مبصرمشن‘‘ نے بھی ورکنگ بائو نڈری کا دورہ کیا ۔ اِس سے پہلے ’’انڈیا‘‘ فائرنگ کے واقعات کی اقوام متحدہ کے ذریعہ تحقیقات کرانے کی پاکستانی تجویز مسترد کر چکا ہے۔ بقول ترجمان ’’انڈین وزارت خارجہ‘‘ کہ نئی حکومت پر امن ماحول میں باہم بات چیت پر سنجیدہ ہے۔ یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ کشیدگی ختم کرے یا اسے بڑھائے۔ جبکہ ’’پاکستانی وزیراعظم‘‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت صرف مذاکرات سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ’’انڈیا‘‘ نے گولہ باری، فائرنگ کو روزانہ کے ناشتے کا معمول بنا دیا ہے۔ ہم امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا سبب ’’انڈین قیادت‘‘ کے بیانات کو نہیں قرار دے سکتے ۔ یہ واحد وجہ نہیں۔ اُس طرف کے افعال اقدامات ہی امن قائم کرنے کی خواہشات کے منافی ہوں۔ تو وجہ کشیدگی صرف بیانات کیوں؟؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان انتہائی احتیاط اور ذِمہ داری کیساتھ مذاکرات کے ذریعہ پُر امن حل کے دیرینہ موقف پر کھڑا ہے۔ ’’دہشت گرد مودی‘‘ کی حلف برداری میں ہمارے ’’وزیراعظم‘‘ کا خیرسگالی کے غیر ضروری والہانہ پن کے جذبے کے تحت شرکت کے باوجود روز ِ اول سے ’’مودی سرکار‘‘ امن کی کھڑکی کھولنے کی بجائے دیوار میں انتہا پسندی کی اینٹیں چُنوا رہی تھی۔ ڈر ہے کہ پاکستان کو بھاری نقصان پہنچانے کی ’’مودی ہدایت‘‘ کہیں ’’برصغیر ‘‘ کے دو ارب انسانوں کی خوشحالی کو نہ نگل ڈالے۔ خطے کی سلامتی کو بھسم کر کے نہ رکھ دے۔ یقینا ’’انڈیا‘‘ احتیاط سے کام لے۔ جنگیں تباہی تو برپا کر سکتی ہیں مگر ’’نوعِ انسانی‘‘ کے مسائل حل نہیں کر سکتیں۔ اِس وقت بڑے ممالک دونوں ہمسایوں کو اپنا مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر انڈیا ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔
نصف صدی سے برصغیر کے عوام ایک محدود دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہر دو طرف سے امن کی خواہش جس وسیع رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اُتنی ہی سرعت سے اِسکی راہ میں مشکلات بھی حائل ہو رہی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ’’اُس طرف کا ہمسایہ‘‘ اخلاص کی دولت سے محروم اور نصف صدی پُرانے مسئلہ کو حل کرنے کی پالیسی سے گریزاں ہے۔ اِس کا بھی سب سے بڑا سبب ’’مودی‘‘ کا ماضی ہے۔ ’’مودی‘‘ کبھی بھی خود کو اپنے ماضی سے الگ نہیں کر پائیں گے۔ دوسری بڑی وجہ ہماری اندرونی سیاسی صورتحال ہے۔ ہم دشمن کی قوت، طاقت، سازشوں اور گٹھ جوڑ سے لاپرواہ ہو کر خود کی طاقت، اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے کھیل میں مشغول ہیں۔ ملک کے اندرونی علاقوں کا سیاسی شورش نے گھیرائو کیا ہوا ہے تو سرحدی پٹی میں معمول کی زندگی معطل ہو چُکی ہے۔ عام آدمی سراسیمگی۔ ابتلاء کا شکار ہے۔ اِس مرحلہ پر ہم جو بھی سوچیں یا قدم اُٹھائیں۔ اِس حقیقت کو ہر گز فراموش مت کریں کہ ’’نئی انڈین قیادت‘‘ انتہا پسندی کی پیدا وار ہے۔ اُس کا رویہ۔ عادات پہلے ادوارِ حکومت سے زیادہ دشمنی پر مبنی اور پاکستان کو بھرپور سبق سِکھانے کے مخاصمانہ جذبے پر ہے۔ بلاشبہ ترقی امن کیساتھ مشروط ہے مگر ’’انڈیا‘‘ کو کون سمجھائے؟؟ ’’جنوبی ایشیا‘‘ کو غربت، افلاس اور دہشت گردی کی گھمبیرتا سے نکالنے کیلئے سب سے بڑی ذِمہ داری ’’انڈیا‘‘ پر عائد ہوتی ہے۔ اُسے چاہئے کہ یکطرفہ اشتعال انگیز اقدامات بند کرکے مذاکرات کی میز پر آئے۔ کروڑوں عوام امن کے خواہاں ہیں۔ خواہش رکھتے ہیں مگر اختیار نہیں۔ عمل کا اختیار صرف۔ ’’قیادت‘‘ کے پاس ہے۔ ناآسودگی پھیلانے اور دشمنی کی آگ میں جلنے کی بجائے’’ہمسایہ ملک‘‘ ’’اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین‘‘ کے دفاتر کو فعال کرے۔ ’’یو این او مبصرین‘‘ موجودہ صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔ فوجی مبصرین کے ذریعہ سرحدی علاقوں کی زیادہ موثر مانٹیرنگ سے مستقبل میں ایسے واقعات کے اعادہ سے بچا جا سکے گا۔ مسئلہ کشمیر جنگ و جدل یا صرف تجارت اور ثقافتی طائفوں کی آمدورفت سے حل نہیں ہونے والا یہ کام اس طرف کی قیادت کی پُرخلوص نیت اور سعی سے ہی ممکن ہے۔ مزید براں دونوں طرف کا ’’میڈیا‘‘ بھی صبروتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر ے۔ خود تراشیدہ تھیوریوں کو پھیلانے کی بجائے حقائق۔ ٹھوس شواہد کیساتھ رپورٹنگ کرے۔خبریں دے۔ عوام میں نفرت کے آلائو سلگانے کی بجائے دونوں ممالک کے ’’میڈیائی افراد‘‘ درست معلومات کے تبادلے کو ترجیح دیں۔ فلیگ میٹنگ کا ریگو لر اہتمام ہو۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اُدھر سے خیالات کا پُرامن تبادلہ اور ہماری قیادت کی جانب سے پُرزور طریقے سے قومی مفادات کا دفاع وقت کی ضرورت ہے۔ ہر دو اطراف کو ’’ماضی کے مدفن‘‘ سے نکل کر کشمیر کے حل کا معنی خیز آغاز کرنا چاہئے۔ ہمارے ہمسائے کو نئے دور کی تعمیری کہانی لکھنے کیلئے فی الفور امن شکن سرگرمیاں بند کرنا ہوں گی۔ یاد رکھیں۔ محبت سے دنیا فتح ہوتی اور جنگوں سے برباد۔
ہمیں ڈرائے تاریکیوں سے وہ
کہ جن کے دلوں میں روشنیوں کی تمنا نہیں

ای پیپر دی نیشن